وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
by کیفی حیدرآبادی

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
حسن بار چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے

میں کہوں تو کیا کہوں اب وہ کہے تو کیا کہے
دے کے دل خاموش ہوں وہ لے کے دل خاموش ہے

اے وفور شادمانی یہ سمجھ لینے تو دے
کیا ہمیں ہیں جس سے وہ ہم بزم ہم آغوش ہے

اس طرف دل پر جگر پر اس طرف رہتا ہے ہاتھ
اپنی ہر کروٹ میں اک معشوق ہم آغوش ہے

تار اس کا ٹوٹنے پائے نہ کیفیؔ حشر تک
دامن اشک ندامت جرم عصیاں پوش ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse