وہ ان زلفوں کا عالم ابتری کا
وہ ان زلفوں کا عالم ابتری کا
سبب تھا میری شوریدہ سری کا
پری کی سی ہو جس ظالم کی رفتار
وہ کیا جانے جتن آدم گری کا
عجب اپنا بھی ہے معشوق بے عیب
ہنر ہے جس میں عاشق پروری کا
تری جادو نگاہی جس نے دیکھی
وہ کب قائل ہے سحر سامری کا
رواں ہیں لخت دل یوں چشم نم سے
مسافر جوں چلے رستہ تری کا
شرف اصحاب کہف اوپر رکھے ہے
جو سگ ہے آستان حیدری کا
بدی مت کر کسی کی منتظرؔ تو
اگر خواہاں ہے اپنی بہتری کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |