وہ اٹھ کر قیامت اٹھانا کسی کا
وہ اٹھ کر قیامت اٹھانا کسی کا
وہ دل تھام کر بیٹھ جانا کسی کا
برا گر نہ مانو تو اتنا کہیں ہم
کہ اچھا نہیں ہے ستانا کسی کا
مری آہ نے ان کو تڑپا دیا ہے
جنہیں کھیل تھا دل دکھانا کسی کا
زباں گو ہوئی بند بسمل کی لیکن
لب زخم پر ہے فسانہ کسی کا
اٹھے میرے پہلو سے دل تھام کر وہ
قیامت ہوا یاد آنا کسی کا
مرے دشمن جاں سب اہل جہاں میں
کہ عاشق ہے سارا زمانہ کسی کا
عجب کیا ہزاروں کو بیمار ڈالے
کسی کی عیادت کو جانا کسی کا
ترے وصل سے ناز ہے کیوں عدو کو
رہے گا نہ یکساں زمانہ کسی کا
مجھے اور بھی بد گماں کر رہا ہے
قسم میرے سر کی نہ کھانا کسی کا
تڑپنے میں کیا جانے کیا منہ سے نکلے
نہ دکھتا ہوا دل دکھانا کسی کا
وہ نوشادؔ کا چھیڑنا وصل کی شب
وہ شرما کے آنکھیں جھکانا کسی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |