وہ اگر بے حجاب ہو جاتا
وہ اگر بے حجاب ہو جاتا
خلق میں انقلاب ہو جاتا
دل سے ہوتی اگر دوئی معدوم
ذرہ بھی آفتاب ہو جاتا
حشر تک ہوش میں نہ آتے کلیمؔ
وہ اگر بے نقاب ہو جاتا
آتش عشق نے جگر پھونکا
دل بھی جل کر کباب ہو جاتا
تم پلاتے جو ہاتھ سے اپنے
ہر قدح آفتاب ہو جاتا
عشق میں لطف ہے تڑپنے کا
یہ سکون اضطراب ہو جاتا
دل لگانا ثواب تھا لیکن
جی چھڑانا عذاب ہو جاتا
نہ لگاتے بتوں سے دل عاصی
نہ زمانہ خراب ہو جاتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |