وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے

وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
by آرزو لکھنوی

وہ بن کر بے زباں لینے کو بیٹھے ہیں زباں مجھ سے
کہ خود کہتے نہیں کچھ اور کہلواتے ہیں ہاں مجھ سے

بہت کچھ حسن ظن رکھتا ہے میرا مہرباں مجھ سے
کہ تہمت دھر کے ہے خواہان تائید بیاں مجھ سے

کسی گل کی قبا ملتی نہیں تحریق سے خالی
جنوں نے لے کے بانٹی ہیں یہ کتنی دھجیاں مجھ سے

پلا ساقی کہ رہ جائے خمار کیف کا پردہ
بس اب رکتیں نہیں آتی ہوئی انگڑائیاں مجھ سے

جو گل کو گل نہ سمجھو گے تو کانٹوں ہی میں الجھو گے
نہ دو اپنے کو دھوکا آپ ہو کر بد گماں مجھ سے

بہت جلدی نہ کر اے چشم تر کچھ دیر کو دم لے
بیاں کرنا وہ تو رہ جائے جتنی داستاں مجھ سے

مثال شمع اپنی آگ میں کیا آپ جل جاؤں
قصاص خامشی لے گی کہاں تک اے زباں مجھ سے

ہوئیں تا دیر پہچانی ہوئی آواز میں باتیں
وہ کچھ کچھ کھل چلے ہیں رکھ کے پردہ درمیاں مجھ سے

تصور کی نظر پردوں کے روکے رک نہیں سکتی
بتا او جانے والے چھپ کے جائے گا کہاں مجھ سے

اگر اے آرزوؔ ہر سانس دل کی آہ بن جائے
نہ ہوگی ختم پھر بھی میری لمبی داستاں مجھ سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse