وہ جو بولیں تو بات جاتی ہے
وہ جو بولیں تو بات جاتی ہے
چپ رہوں میں تو رات جاتی ہے
ساتھ حوروں کے ہے شہید ترا
کیا عدم کو برات جاتی ہے
مے کے پینے سے کر تو لوں توبہ
آرزوئے نجات جاتی ہے
دل لگی کا مزہ جب آتا ہے
ہستی بے ثبات جاتی ہے
خوب آتا ہے لطف آزادی
جب یہ قید حیات جاتی ہے
کیا کروں داغؔ وصل میں شکوہ
بات کہنے میں رات جاتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |