وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں

وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں
by شیر سنگھ ناز دہلوی

وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں
کہ ہے نغمہ نغمہ مری دسترس میں

تصور بہاروں میں ڈوبا ہوا ہے
چمن کا مزہ مل رہا ہے قفس میں

گلوں میں یہ سرگوشیاں کس لیے ہیں
ابھی اور رہنا پڑے گا قفس میں

نہ جینا ہے جینا نہ مرنا ہے مرنا
نرالی ہیں سب سے محبت کی رسمیں

نہ دیکھی کبھی ہم نے گلشن کی صورت
ترستے رہے زندگی بھر قفس میں

کہو خواہ کچھ بھی مگر سچ تو یہ ہے
جو ہوتے ہیں جھوٹے وہ کھاتے ہیں قسمیں

میں ہونے کو یوں تو رہا ہو گیا ہوں
مری روح اب تک ہے لیکن قفس میں

نہ گرتا میں اے نازؔ ان کی نظر سے
دل اپنا یہ کم بخت ہوتا جو بس میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse