وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو

وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
by ظہیر دہلوی

وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو
وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو

عدو تم سے تم ان سے بدگماں ہو
تمھارے وہ تم ان کے پاسباں ہو

بھلا تم اور مجھ پر مہرباں ہو
عنایت یہ نصیب دشمناں ہو

مرا حال اور پھر میرا بیاں ہو
عجب کیا گر عدو بھی ہم زباں ہو

کہیں کس سے خودی میں تم کہاں ہو
گلہ جب ہو کہ قابو میں زباں ہو

تمھاری بے رخی شکوے ہمارے
قیامت تک نہ پوری داستاں ہو

زباں بہکی ہوئی حیراں نگاہیں
خیال دل کہاں ہے تم کہاں ہو

مزہ جب آئے ان سے گفتگو کا
پیامی کا دہن میری زباں ہو

کشیدہ کیوں نہ ہو بازار یوسف
کہ جب تم سا متاع کارواں ہو

کہوں کیا راز دل کیوں کر ہو باور
کہ تم سا ہی تمھارا رازداں ہو

ابھی سے کس لیے دل چھوڑ بیٹھیں
جہاں تک ہو سکے آہ و فغاں ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse