وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے

وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
by بیان میرٹھی
324860وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہےبیان میرٹھی

وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
کہ حوت آسماں تہہ میں پڑی ہے

مرے ارماں بتوں کی سرد مہری
زراعت برف کے پالے پڑی ہے

چمن میں سرو کا بہروپ بھر کر
قیامت منتظر کس کی کھڑی ہے

دہان تنگ غنچہ پتیاں لب
ہنسی ہے پھول فقرہ پنکھڑی ہے

لگا دی آگ کس شعلہ نے بلبل
ہر اک پھولوں کی ٹہنی پھلجھڑی ہے

نگاہ یاس کس کی کر گئی چوٹ
کہ گردن تیغ کی ڈھلکی پڑی ہے

عناصر جلد پہنچا دیں گے تا گور
نہایت تیز رو یہ چوکڑی ہے

کفن سے منہ لپیٹے میری حسرت
دل ویراں کے کونے میں پڑی ہے

سرہانے مدعی آیا تو جانا
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے

کسی کو پار اتارے گا فلک کیا
اسی کی ناؤ چکر میں پڑی ہے

بنا لے عقل آگ کا پتلا فلاطوں
کہ تلچھٹ کچھ مرے خم میں پڑی ہے

نشہ ہے اور ہرن ہیں اس کی آنکھیں
نظر بازی ہرن کی چوکڑی ہے

نگاہ شوق سے سینہ چرایا
ہماری چوٹ تم سے بھی کڑی ہے

بلائے زلف مہماں سے کہوں کیا
نہیں ٹلتی مرے سر آ پڑی ہے

سیاہی دور ہوگی رفتہ رفتہ
ابھی زاہد کی داڑھی کڑبڑی ہے

سر محشر بڑھی ہے کس قدر زلف
قیامت کس قدر اوچھی پڑی ہے

گہر بیں ہے نظام الملک اپنا
طبیعت کیا بیاںؔ قسمت لڑی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.