وہ دلبری کا اس کی جو کچھ حال ہے سو ہے
وہ دلبری کا اس کی جو کچھ حال ہے سو ہے
اور اپنی دل دہی کا جو احوال ہے سو ہے
مت پوچھ اس کی زلف کی الجھیڑے کا بیان
یہ میری جان کے لیے جنجال ہے سو ہے
نیکی بدی کا کوئی کسی کے نہیں شریک
جو اپنا اپنا نامۂ اعمال ہے سو ہے
پس جائے کوئی ہو یا کہ پامال اس کو کیا
اس گردش فلک کی جو کچھ چال ہے سو ہے
وے ہی علم میں آہوں کے ویسی ہی فوج اشک
اب تک غم و الم کا جو اقبال ہے سو ہے
ایسا تو وہ نہیں جو مرا چارہ ساز ہو
پھر فائدہ کہے سے جو کچھ حال ہے سو ہے
شکوہ مجھے تو سوزن مژگاں سے کچھ نہیں
دل خار خار آہ سے غربال ہے سو ہے
نقش قدم کی طرح حسنؔ اس کی راہ میں
اپنا یہ دل سدا سے جو پامال ہے سو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |