وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زباں اور ہم
وہ دیکھا خواب قاصر جس سے ہے اپنی زباں اور ہم
کہ گویا ایک جا ہے اس میں ہے وہ نوجواں اور ہم
وہ رو رو مجھ سے کہتا ہے خدا کی باتیں ہیں ورنہ
بھلا ٹک دل میں اپنے غور کر تو یہ مکاں اور ہم
جو پوچھا قیس سے لیلیٰ نے جنگل میں اکیلے ہو
تو بولے اے نہیں وحشت ہے اور آہ و فغاں اور ہم
اجی گڑبڑ رہی ہے عقل اپنے سب فرشتوں سے
پڑے پھرتے ہیں باہم سیر کرتے قدسیاں اور ہم
نشا ہے عالم مستی ہے بے قیدی ہے رندی ہے
کہاں اب زہد و تقویٰ ہے خرابات مغاں اور ہم
نیابت ہم کو رضواں کی ملی مولیٰ کے صدقہ سے
وگرنہ عہدۂ دربانیٔ باغ جناں اور ہم
عجب رنگینیاں باتوں میں کچھ ہوتی ہیں اے انشاؔ
بہم ہو بیٹھتے ہیں جب سعادت یار خاں اور ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |