وہ ساغر شباب چھلکتا ہوا ہے کیا
وہ ساغر شباب چھلکتا ہوا ہے کیا
آنکھوں سے یہ تراوش رنگ ادا ہے کیا
تیرا گناہ گار ہوں تیرے سوا ہے کیا
اپنی طرف تو دیکھ مجھے دیکھتا ہے کیا
جب دل ہی بجھ گیا تو کسی سے گلہ ہے کیا
جب میں نہیں رہا تو پھر اچھا برا ہے کیا
عذر جفا کے پردہ میں فکر جفا ہے کیا
ظالم پھر امتحان امید وفا ہے کیا
در پردہ پھر یہ رنجش طاقت گسل ہے کیوں
بے پردہ پھر یہ نازش صبر آزما ہے کیا
پھر یہ تغافل ستم بے حجاب کیوں
پھر یہ تجاہل نگہ آشنا ہے کیا
جادو طرازیٔ سخن دل نشیں ہے کیوں
نیرنگ وعدہائے تسلی فزا ہے کیا
افسون شوق گوش دو عالم میں پھونکنا
پھر مانگنا کہیں دل بے مدعا ہے کیا
خوں نابۂ سرشک پہ یوں خاک ڈالنا
پھر چھیڑنا کہ سرخیٔ رنگ حنا ہے کیا
پہلے کسی کے ناخن تدبیر توڑنا
پھر پوچھنا کہ عقدۂ بند قبا ہے کیا
محشر بھی ایک صفحۂ بزم خیال ہے
اعمال نامۂ نگۂ سرمہ سا ہے کیا
سیلاب آتشیں بنا موسیٰ ہے موجزن
خون بہار کیا رگ موج صبا ہے کیا
دیکھو حریف طعنۂ دشمن نہ ہو سکا
تم جانتے ہو یہ دل بے مدعا ہے کیا
تعبیر رنگ حال پہ جیتا ہوں ہائے ہائے
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں تمہیں ہو گیا ہے کیا
تعلیم غیر سے بھی تغافل نہ چھوڑنا
ہم یاس پر جئیں گے امید وفا ہے کیا
آئینہ ہے گواہ کہ ہوں مظہر صفات
اے حسن بے حجاب مرا پوچھنا ہے کیا
تیری طرف ہیں ظاہر و باطن کھنچے ہوئے
ہستی کو چھوڑ دیکھ عدم میں رہا ہے کیا
شیرازۂ وجود و عدم ہے تری کمر
جو راز کھل گیا ہے وہی چھپ گیا ہے کیا
قربان اس بگاڑ کے صدقے بناؤ گے
جو تجھ پہ مٹ گیا ہے وہی بن گیا ہے کیا
ہے وقت نزع ناقۂ عمر رواں بھی گرم
ہے ہے شکست رنگ صدائے درا ہے کیا
کیوں دوستی کے پردہ سے آتی ہے بوئے غیر
خلوت گہہ وصال میں جوش حیا ہے کیا
مجبور ہو کے غیر کو اپنا بنا لیا
ظالم کی دشمنی بھی محبت فزا ہے کیا
توڑا ہے تم نے عہد محبت ہزار بار
آخر شکست شیشۂ دل کی صدا ہے کیا
احباب قدرداں ہیں سخن فہم اے وفاؔ
پھر تو بتا کہ تیری غزل کا صلہ ہے کیا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |