وہ سر نہیں جس میں ترا سودا نہیں ہوتا
وہ سر نہیں جس میں ترا سودا نہیں ہوتا
آنکھیں نہیں جن میں ترا جلوہ نہیں ہوتا
کیوں مجھ پہ کرم آپ کا مولا نہیں ہوتا
کیوں نذر کے قابل دل شیدا نہیں ہوتا
کب تک دل بیمار تڑپتا رہے آقا
کیوں لطف و کرم اس پہ مسیحا نہیں ہوتا
تیر نگہ یار کا کشتہ ہے مرا دل
جز مرہم دیدار وہ اچھا نہیں ہوتا
کیا خاک ملے اس کو مزا عشق کا تیرے
دنیا میں جو تیرے لئے رسوا نہیں ہوتا
کیوں چھپ کے چلے جاتے ہو ہم غیر نہیں ہیں
اپنوں سے جہاں میں کہیں پردا نہیں ہوتا
کشتہ تری دزدیدہ نگاہوں کا قمرؔ ہے
روتا ہے تڑپتا ہے وہ اچھا نہیں ہوتا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |