وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے

وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے
by نظیر اکبر آبادی
316013وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہےنظیر اکبر آبادی

وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے
ولے اپنا جو دل زار ہے وہ ہزار جان سے نثار ہے

ملے جب سے کوچے میں اس کے جا یہ سرور عیش ہے برملا
لب دل ہے اور وہ نقش پا بر جاں ہے اور در یار ہے

وہ نگہ جو اس کی ہے فتنہ گر اسے مشق صید ہے پیشتر
ہے جو دل کا طائر تیز پر اسی باز کا یہ شکار ہے

وہ مژہ لگا کے جو ایک سنان گئی پھر تو کر نہ دل اب فغاں
کئی ایسے ہوویں گے امتحاں یہ ابھی تو پہلا ہی وار ہے

جو بہار گل پہ رہی ہے تل ہمیں کیا جو حسن کی پی ہے مل
جنہیں چاہئے ہے وہ رشک گل انہیں گل سے کیا سروکار ہے

جو بتوں کو دیویں دل اور دیں رکھیں اس کو یہ بہ الم قریں
بھلا کہئے کیا اسے ہم نشیں یہ عجب کچھ ان کا شعار ہے

کئی دن ہوے ہیں نظیرؔ اب کہ خفا ہے ہم سے وہ غنچہ لب
اسے کیا ولے ہمیں روز و شب نہ تو صبر ہے نہ قرار ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.