وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ
تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے
شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ہے
ذرا دیکھو تو کیوں کر غم زدوں کا دم نکلتا ہے
نگاہ التفات مہر اور انداز دل جوئی
مگر اک پہلوئے بے تابئ شبنم نکلتا ہے
صفیؔ کشتہ ہوں نا پرسانیوں کا اہل عالم کی
یہ دیکھوں کون میرا صاحب ماتم نکلتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |