وہ عندلیب ہوں کہ صدا مجھ کو غم رہا
وہ عندلیب ہوں کہ صدا مجھ کو غم رہا
باغ جہاں میں نخل تمنا قلم رہا
وحشی وہ ہوں کہ حد عدم سے نہ بڑھ گیا
صحرا میں قیس کا میں قدم در قدم رہا
منظور ان کو صاف ہیں وعدہ خلافیاں
اے انتظار کیوں مری آنکھوں میں دم رہا
اکثر مری غزل میں جو نکتے ہیں رمز ہیں
عاجز جبھی ثنا میں ہر اہل قلم رہا
عادت سجود کی جو تھی عہد شباب میں
پیری میں بھی صدا قد عاشق میں خم رہا
ذرہ نئی غزل کہی یکتاؔ کے فیض سے
گو درد مشق شعر و سخن تجھ کو کم رہا
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |