وہ قامتِ بلند نہیں در قبائے ناز
وہ قامتِ بلند نہیں در قبائے ناز
اک سروِ ناز ہے جو بنا ہو برائے ناز
اُس نازنیں پہ ختم ہیں سب شیوہ ہائے ناز
جس کو بنا کے خود بھی ہے نازاں خدائے ناز
کیا کیا نہ آرزو کے بڑھیں دل میں حوصلے
رکھ دیں کبھی جو فرقِ ہوس پردہ پائے ناز
اربابِ اشتیاق ہیں اور انتہائے شوق
حالانکہ حُسن یار ہے اور ابتدائے ناز
کچھ یوں ہی اپنے حُسن پر مغرور تھا وہ شوخ
کچھ لے اُڑی ہے اور بھی اسکو ہوائے ناز
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |