وہ محبت وہ دل وہ خو ہی نہیں
وہ محبت وہ دل وہ خو ہی نہیں
واقعہ ہے کہ تو وہ تو ہی نہیں
کب وہ ایفائے عہد کرتے ہیں
جب یہاں دل میں آرزو ہی نہیں
التفات ستم نما ہے یہ
آج وہ طرز گفتگو ہی نہیں
ہائے کیا دن تھے وہ مسرت کے
جب یہ کہتے تھے آرزو ہی نہیں
ذرہ ذرہ ہے پرتو لمعات
چشم جلوہ شناس تو ہی نہیں
کب وہ آئے ہیں پوچھنے احوال
جب یہاں تاب گفتگو ہی نہیں
آنکھ میں پھر کہاں سے آتا ہے
جب کہیں جسم میں لہو ہی نہیں
خواہش وصل خامکاری ہے
دل سے نکلے وہ آرزو ہی نہیں
غفلت جرأت آزما بے سود
کہ یہاں پائے جستجو ہی نہیں
سنگ در بھی رہا ہے صرف جبیں
شاہد سجدہ خاک کو ہی نہیں
سر نہ کٹ کر گرے تو سجدہ کیا
خون سے جو نہ ہو وضو ہی نہیں
ان کا ملنا منیرؔ آساں ہے
سچ تو یہ ہے کہ جستجو ہی نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |