وہ مسیحا قبر پر آتا رہا

وہ مسیحا قبر پر آتا رہا
by مردان علی خاں رانا
316824وہ مسیحا قبر پر آتا رہامردان علی خاں رانا

وہ مسیحا قبر پر آتا رہا
میں موے پر روز جی جاتا رہا

زندگی کی ہم نے مر مر کے بصر
وہ بت ترسا جو ترساتا رہا

واہ بخت نارسا دیکھا تجھے
نامہ بر سے خط کہیں جاتا رہا

راہ تکتے تکتے آخر جاں گئی
وہ تغافل کیش بس آتا رہا

دل تو دینے کو دیا پر ہم نشیں
ہاتھ میں مل مل کے پچھتاتا رہا

دیکھ اس کو ہو گیا میں بے خبر
دل یکایک ہاتھ سے جاتا رہا

کیا کہوں کس طرح فرقت میں جیا
خون دل پیتا تو غم کھاتا رہا

رات بھر اوس برق وش کی یاد میں
سیل اشک آنکھوں سے برساتا رہا

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اس کو جا بہ جا
دل خدا جانے کدھر جاتا رہا

اس مسیحا کی امید وصل میں
شام جیتا صبح مر جاتا رہا

عشق کا رعناؔ مرض ہے لا دوا
کب سنا تو نے کہ وہ جاتا رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.