وہ میرا انتظار کر رہی ہے

وہ میرا انتظار کر رہی ہے
by قاضی عبدالغفار

زندگی کے پرشور دریا میں، رات کے وقت، کتنے دیے بہے چلے جاتے ہیں۔ حیات انسانی کے کوہساروں میں کتنے جگنو چمکتے ہیں۔ اور پھر ان کو ظلمت شب اپنی چادر میں لپیٹ کر نہ جانے کہاں لے جاتی ہیں؟ آسمان پر کتنی بجلیاں چمکتی ہیں اور پھر کالے بادلوں میں منھ چھپا لیتی ہیں۔ بادل کی گود سےہزار مرتبہ نکلتی ہیں اور پھر اسی میں جاکر چھپ جاتی ہیں۔

یہ آٹھ پہر کی داستان ہے۔ گوش ہوش سنتا ہے۔ اور چشم عبرت دیکھتی ہے۔

ظاہر کی تشریح بیکار اور عیاں کا بیان فضول، پھر کیجیے کیا کہ دل کے زخموں کالطف کریدنے سے دونا ہوتا ہے۔ مسکین فاختہ اپنے زخم کو اپنے پردوں سےچھپا لیتی ہے۔ مگر انسان زخم کو کریدتا رہتا ہے کہ کہیں خلش کم نہ ہوجائے۔ خون نہ رک جائے۔

اس کے زخم کی جان بہتا ہوا گرم خون اور دکھتا ہوا جسم ہے۔ گرم خون اگر نہ بہے تو تالاب کے پانی کی طرح میلا اور ناپاک ہوتا ہے۔ جسم اگر دکھے نہیں تو وہ کچھ بھی نہیں۔ خاک ہے۔ مضر حرکت کا نامہے۔ اور حضرت موت ہے۔ زندگی زخم ہے اورموت اس کا اندمال!

پس میری آنکھوں سے دیکھو کہ میرا سفر خارِ مغیلاں کے بغیر بے لطف رہتا اور میری منزل درد کی تڑپ اور زخموں کے بغیر سونی اور ویران۔

چمن کی کیاریوں میں جب نسیم شمالی آتی ہے تو اس کے جھونکےبند کلیوں کو کھلا دیتے ہیں۔ مگر جو پھول کھل جاتے ہیں ان کی پتیوں کو ہر طرف بکھیر دیتے ہیں۔

میرے مرجھائے ہوئے پھولوں کی کیاریوں میں جب کبھی کوئی جھونکا آتا ہے تو وہ دوچار پتیاں اڑاکر لے جاتا ہے۔ پتیاں خشک ہوجاتی ہیں۔ مگر بے رنگ نہیں ہوتیں۔ ان کا اجڑا ہوا رنگ بھی دورِ بہار کی ایک داستان بیان کرتا ہے۔

ہاں! ان خشک پتیوں کی داستان خشک نہیں ہے۔ آبشار کی ملکہ سے پوچھو وہ میری داستان کی تصویق کرے گی۔ میری داستان اسی کی داستان ہے۔ کیا وہ بھول گئی ہوگی؟

ایک شعاع نور تھی کہ فضائے بسیط میں چمکی۔ اور اپنے ہی نور میں محو ہوگئی۔ زندگی کا ایک ہلکا نغمہ تھا کہ ہوا کا ایک جھونکا اس کو کہیں سے لایا اور لے گیا۔

ایک ننھی کلی تھی کہ پھول بنی اور بن کر مرجھاگئی۔ یا ستارہ امید تھا کہ چند لمحوں کے لیے اپنی خنک روشنی سے دنیا کو منور کرکے رخصت ہوگیا۔۔۔ تھا کیا؟ مجھ سے نہ پوچھو، میں جانتا ہوں، مگر بتاؤں گا نہیں! ہاں نہیں بتاؤں گا! اور کیونکر بتاؤں کہ بتا سکتا نہیں، اگرکوئی شخص آنکھ کے نور اور روح کی گہرائی کو چھوسکتا ہو تو صرف وہی اس شعاع نور، اس نغمہ حیات، اس شمارہ امید کی حقیقت سے بھی آشنا ہونے کا دعوی کرے۔

میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ اور زندگی میں میرا وہ شاید پہلا اورآخری خواب تھا۔ میں نے دیکا کہ آسمان پرستارے رقص کر رہے ہیں۔ ماہتاب کی شعاعیں کانپ رہی ہیں۔ چادر ماہتاب کبھی ایسی خنک اور جاں بخش نہ تھی جیسی کہ اس شب کو ماہتاب کی ایک کرن پر جو آسمان سےزمین کی طرف پھیلی ہوئی تھی، اس طرح جیسے دوتارہ کے تار پر موسیقی، میں نے اس کو کھلتے ہوئے پایا۔ زمین سے آسمان تک ایک عالم لاہوتی تھا۔ اور اس فضا میں زندگی کاایک چشمہ ابل رہا تھا۔ اس چشمہ کے آبشار ہنستے ہوئے پھولوں اور مسکراتی ہوئی کلیوں کے انبوہ میں اس طرح گر رہے تھے کہ گویا بے تابانہ لوٹ رہے ہیں۔ نور کی ان موجوں میں بہت سی سرخ اور سبز مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ کھیل رہی تھیں۔ رقص کر رہی تھیں۔ مگر ایک زمردیں مچھلی ان سب کے درمیان تھی۔ جو نہ کھیلتی تھی نہ رقص کرتی تھی۔ اس کے سرپر ایک درِشاہوار تھا۔ کہ اس کا مثل میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ آبشار کی روانی کےساتھ یہ ماہی زمردیں ایک عالم استغراق میں کچھ کھوئی ہوئی، بھولی ہوئی، پھولوں اور کلیوں میں الجھ الجھ کر پیچھے ہٹتی اور پھر آگے بڑھتی تھی۔ آگے نکل کر پھر پیچھے ہٹتی تھی۔ پھر آگے جاتی تھی۔ ہر شاخ گل سے الجھتی تھی۔ ہر پھول کو مس کرتی تھی۔ اور گویا مایوس ہوکر کبھی آگے بڑھ جاتی تھی۔ کبھی پیچھے ہٹ آتی تھی۔ وہ اس عالمرنگ وبو میں سب سے علیحدہ اور سب کے ساتھ تھی۔

میری نظروں میں طاقت نہ تھی کہ اس کا راستہ روکیں۔ میں نے ہاتھ بڑھایا! انسان کا خود غرض ہاتھ!! جو پھولوں اور کلیوں کو صرف اس لیے مسلتا ہے کہ ان کا مسلنا ان کی حیوانیت کے لیے تسکین بخش ہے۔ رنگ و بو کو رنگ و بو کی خاطر وہ پسند نہیں کرتا۔ اس کو تو محض اپنے نفس کی ’طلب‘ کے آگے برھاکر پھولوں کے توڑنے اورسبزہ کے مسلنے پر آمادہ کرتی ہے۔

میرا خودغرض ہاتھ پانچ انگلیوں کاجال لے کر بڑھا:

پھولوں کے جھمگٹے میں ابھی اس ماہئی زمردیں نے شاید دوچار ہی چکر لگائے تھے کہ میرا ہاتھ اس کی کمر تک پہنچا۔ اور وہ شاید نہ پہنچ سکتا۔ اگرمیں خود تابہ کمر پانی میں نہ پہنچ گیا ہوتا۔

پھول میرے جسم کو مس کر رہے تھے، کلیاں مجھے گدگدا رہی تھیں۔ پر میں دیوانہ وار اس سبز پوش پردست ہوس دراز کر رہا تھا۔ یہ تو میں نہ کہوں گاکہ تصور تنہا میرا ہی تھا۔ اس لیے کہ اگر میں نے ہاتھ بڑھایا تھا تو کچھ کشش اس کی طرف سے بھی تھی۔ اس کے زمردیں لباس اور اس کے حسن تمام نے یہی میرے دست طلب کے ساتھ سازش کی تھی! اورشاید آبشار کے ان شریر پھولوں نے بھی مجھے اشتعال دلایا تھا۔ بہرحال میرا گناہ آلودہ ہاتھ، جو خدا جانے کتنے پھول مسل چکا تھا۔ پانی کی اس ملکہ تک پہنچا اور میں نے سمجھا کہ پانی کی اب تمام شہنشاہی میرے ہی لیے ہے۔۔۔ لیکن شاید دست طلب کی صرف ایک انگلی سے میں نے اس جسد زمردیں کو چھوا ہوگا کہ ایک بجلی میری آنکھوں کے سامنے چمکی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آبشار زندگی کی وہ کجکلاہ ایک شعاعِ نوربن کر سطح آپ سے نکلی۔ بہ یک آن واحد چمک کر اٹھی اور میری آنکھوں کے سامنے سے گزر کر ماہتاب کے ہالہ میں جابیٹھی۔۔۔ آج تک میں اس کو اپنے تخت آسمانی پر متمکن دیکھتا ہوں اور پچھتاتا ہوں کہ میں نے اس کو چھوا کیوں تھا!

صبح کو جب کہ ہنوز دامنِ مشرق چاک نہیں ہوا تھا۔ میں اس آسمان کی ملکہ کو خاموش آسمانوں پر صبح کاذب کی روشنی میں جھلملاتے دیکھتا ہوں۔ شب کو بھی میری نظر اسی ستارۂ امید پر جمی ہوتی ہے۔ جس کی خنک شعاعیں اپنا پیام لے کر رات بھر میرے پاس آتی رہتی ہیں۔ اور میرے پیام لے کر آبشار کی اسی زردیں ملکہ تک واپس جاتی ہیں جو اپنے آسمانی مسکن میں نور کا لباس پہنے بیٹھی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ وہ میرا انتظار کر رہی ہے! پس جس دن میرا یہ جسدِ خاکی سپرد خاک ہوگا۔ اس دن تم اس ستارے کے چاروں طرف ایک ہالہ دیکھو گے۔۔۔ وہ ہالہ میری روح ہوگی!

۱۹۱۸ء

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse