وہ وہاں غیر کو مہمان کئے بیٹھے ہیں
وہ وہاں غیر کو مہمان کئے بیٹھے ہیں
ہم یہاں عیش کا سامان کئے بیٹھے ہیں
زہر کھا لیں گے شب وعدہ نہ آؤ گے اگر
اپنی مشکل کو ہم آسان کئے بیٹھے ہیں
کل شب وصل تھی سب عیش میسر تھے ہمیں
آج ہم چاک گریبان کئے بیٹھے ہیں
عشق پردے میں رہے کب تلک اے جوش جنوں
ہم بھی طوفان کا سامان کئے بیٹھے ہیں
ان کی زلفوں کا تصور بھی غضب ہے عاشقؔ
دل کو خود اپنے پریشان کئے بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |