وہ پری ہی نہیں کچھ ہو کے کڑی مجھ سے لڑی
وہ پری ہی نہیں کچھ ہو کے کڑی مجھ سے لڑی
آنکھ نرگس سے بھی دو چار گھڑی مجھ سے لڑی
واسطے تیرے مرا رنگ محل ہے دشمن
تیری خاطر تو ہر اک چھوٹی بڑی مجھ سے لڑی
جھڑ لگا دی مری آنکھوں نے تو لو اور سنو
ٹکٹکی باندھ کے کیوں منہ کی جھڑی مجھ سے لڑی
رات لڑ بھڑ وہ جو چپ ہو رہی تو ان کے عوض
بولتے تھے وہ جو سونے کی گھڑی مجھ سے لڑی
بیٹھے بیٹھے کہیں بلبل کو جو چھیڑا میں نے
تو نسیم اس کی بدل ہو کے کھڑی مجھ سے لڑی
کون سی حور یہاں کھیلنے چوتھی آئی
بوئے گل لے کے جو پھولوں کی چھڑی مجھ سے لڑی
روٹھ کر ان کی گلی میں جو لگا تو انشاؔ
ہر اک اس دو لڑی موتی کی لڑی مجھ سے لڑی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |