وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
by ظہیر دہلوی

وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ کسی پہ تھا کوئی مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم بھی تم بھی تھے ایک جا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بنانا چہرہ عتاب کا وہ نہ دینا منہ سے جواب کا
وہ کسی کی منت و التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تمہیں جس کی چاہ پہ ناز تھا جو تمھارا محرم راز تھا
میں وہی ہوں عاشق باوفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی ساز تھے کبھی ہم بھی وقف نیاز تھے
ہمیں یاد تھا سو جتا دیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بولنا وہ خفا خفا کبھی بیٹھنا وہ جدا جدا
وہ زمانہ ناز و نیاز کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ابھی تھوڑے دن کا ہے تذکرہ کہ رقیب کہتے تھے برملا
مرے آگے تم کو برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہنس کے منہ کو چھپا لیا کبھی مسکرا کے دکھا دیا
کبھی شوخیاں تھیں کبھی حیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جو بنا ہے عارف با خدا یہ وہی ظہیرؔ ہے بے حیا
وہ جو رند خانہ بدوش تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse