وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں

وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں
یہ مے فروش تو ٹوپی اتار لیتے ہیں

یہ پاس پردہ نشینوں کا ہے کہ نالے بھی
جو اونچے ہوتے ہیں پردہ پکار لیتے ہیں

وہ کہتے ہیں ابھی اللہ اتنی طاقت ہے
جو کروٹیں کبھی ہم بے قرار لیتے ہیں

بچائیں گے گل و بلبل کو دام گلچیں سے
جو کوئی پہنچے تو فصل بہار لیتے ہیں

یہی ہیں کام نکلتا ہے جن کا بے طاعت
مزے کرم کے ترے شرمسار لیتے ہیں

اترتے عرش سے ڈرتا ہے تو دعا والے
اثر کو ہاتھ بڑھا کر اتار لیتے ہیں

شراب کے لیے مے نوش منہ ہیں پھیلائے
جمھائیاں نہیں وقت خمار لیتے ہیں

گناہ گار ہیں اتنے ہی ان بتوں کے ہم
کہ پانچ وقت خدا کو پکار لیتے ہیں

جما یہ رنگ کہ اب وقت زمزمہ سنجی
چمن میں مجھ کو عنادل پکار لیتے ہیں

پئے ہوں کتنی ہی لیکن یہ ہوش رہتا ہے
کہ سوتے وقت وہ زیور اتار لیتے ہیں

ریاضؔ باتوں میں اپنی اگر نہیں جادو
پری کو شیشے میں یوں ہی اتار لیتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse