وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتا

وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتا
by ولی عزلت
299407وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتاولی عزلت

وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتا
مرا ہر زخم جوں وہ تیغ ہوتی دور، رو دیتا

عجب ڈھوری لگن میری کی تھی اس شمع سرکش کو
کہ میرا دیکھتا جب عجز وہ مغرور رو دیتا

ہمارے شہر درد آباد میں لوہو کے آنسو سے
وہاں کا دار جب سولی دیا منصور رو دیتا

مثال صبح شبنم ریز جو سورج کا برقعہ ہے
چھڑکتا جب وہ میرے داغ دل پر شور رو دیتا

جو ہوتی وہ پلک نشتر سحاب چشم کی رگ پر
مرے سیلاب اشک آگے ندی کا پور رو دیتا

نہ نکلا گھر سے ورنہ نعش میری خاک راہ اوپر
پڑی گر دیکھتا عزلتؔ وہ رشک حور رو دیتا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.