وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا

وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
by آرزو لکھنوی

وہ کیا لکھتا جسے انکار کرتے بھی حجاب آیا
جواب خط نہیں آیا تو یہ سمجھو جواب آیا

قریب صبح یہ کہہ کر اجل نے آنکھ جھپکا دی
ارے او ہجر کے مارے تجھے اب تک نہ خواب آیا

دل اس آواز کے صدقے یہ مشکل میں کہا کس نے
نہ گھبرانا نہ گھبرانا میں آیا اور شتاب آیا

کوئی قتال صورت دیکھ لی مرنے لگے اس پر
یہ موت اک خوشنما پردے میں آئی یا شباب آیا

پرانے عہد ٹوٹے ہو گئے پیماں نئے قائم
بنا دی اس نے دنیا دوسری جو انقلاب آیا

گزر گاہ محبت بن گئی اک مستقل بستی
لگا کر آگ آیا گھر کو جو خانہ خراب آیا

معمہ بن گیا راز محبت آرزوؔ یوں ہی
وہ مجھ سے پوچھتے جھجکے مجھے کہتے حجاب آیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse