وہ ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
وہ ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
بغل میں چاند ہے اور آفتاب ہاتھ میں ہے
پلا کے پیر کو ساغر جواں بناتا ہے
مزہ ہے پیر مغاں کے شباب ہاتھ میں ہے
بر آئی آج مرے دل کی آرزو صد شکر
کہ دامن آپ کا روز حساب ہاتھ میں ہے
یہ آئے کس کے قدم دست موج سے دریا
لئے ہوئے جو کلاہ حباب ہاتھ میں ہے
عرق وصال میں پونچھا ہے گل سے گالوں کو
یہی ہے وجہ کہ بوئے گلاب ہاتھ میں ہے
بن آئی ہے مرے دست ہوس کی وصل کی شب
حنا لگائے جو وہ مست خواب ہاتھ میں ہے
ہوا سے تیز وہ آتا ہے نامہ بر میرا
نیاز نامے کا میرے جواب ہاتھ میں ہے
کھلے ہیں گل گل عارض کے وصف میں سر دست
قلم مرا ہے کہ شاخ گلاب ہاتھ میں ہے
حفیظؔ آپ کا دیوان یہ ہوا مقبول
کہ جس کو دیکھو لیے یہ کتاب ہاتھ میں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |