وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں

وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
by ریاض خیرآبادی

وہ ہوں مٹھی میں ان کی دل ہو ہم ہوں
یوں ہی پردہ سا کچھ حائل ہو ہم ہوں

ستائیں ہم اسی طرح جس طرح چاہیں
کوئی نشہ میں یوں غافل ہو ہم ہوں

تمہارا بام رشک آسماں ہو
اگر تم ہو مہ کامل ہو ہم ہوں

مزا خلوت کا آئے قتل گہہ میں
وہاں کوئی نہ ہو قاتل ہو ہم ہوں

ہر اک گوشے میں جیسے حشر برپا
نئے فتنے ہوں وہ محفل ہو ہم ہوں

نہیں پروا نہ سبزہ ہو لب جو
یہ مینا ہو لب ساحل ہو ہم ہوں

ہمارے ہاتھ میں ہو تیغ قاتل
نہ ہو کوئی عدو بسمل ہو ہم ہوں

گرہ ہو زلف کی دل میں ہمارے
ہمارا عقدۂ مشکل ہو ہم ہوں

پرانے نجد میں اب ہوں نئے آج
نئی لیلیٰ نیا محمل ہو ہم ہوں

یوں ہی ہم اپنی ہستی سے گزر جائیں
ہماری سعئ لا حاصل ہو ہم ہوں

یہ کم بخت اک جہان آرزو ہے
نہ ہو کوئی ہمارا دل ہو ہم ہوں

نہ ہم اٹھیں نہ کوئی ہاتھ اٹھائے
گلے پر خنجر قاتل ہو ہم ہوں

یہ سہو و محو ہوں ہم سیر گل میں
ہر اک غنچہ ہمارا دل ہو ہم ہوں

ریاضؔ اس شوخ کو بھی تم سنا دو
وہ کیا ہے چلبلا سا دل ہو ہم ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse