ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا
ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا
مت چھیڑ میرے دل کو بیٹھا ہے کنکھجورا
چمپا کلی اس کی کیوں کر خیال چھوٹے
بے وجہ دل سے آ کر لپٹا ہے کنکھجورا
وہ جنبش نگہ کیوں مارے نہ ڈنک ہر دم
تحریر سرمہ گویا کالا ہے کنکھجورا
زیب گلو ہے کنٹھی یاقوت کی ہے گھنڈی
اے شوخ یہ گریباں تیرا ہے کنکھجورا
رہتا ہے کیا تصور دن رات مجھ کو اس کا
آنکھوں میں لال سر کا پھرتا ہے کنکھجورا
طفلی میں کھیل سیکھے مجھ پر جو اب بنا کر
تنکوں سے سینگرے کے پھینکا ہے کنکھجورا
خط سیاہ درپئے ہے زلف کے نصیرؔ اب
بچھو کا چھیننے گھر نکلا ہے کنکھجورا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |