ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک
قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم
پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک
لے جاؤں اب میں یاں سے کہاں اپنا آشیاں
دشمن ہے اس چمن میں مرا خار خار تک
دست ستم دراز کیا جب جنون نے
چھوڑا نہ میرے پاس گریباں کا تار تک
پھر بھی ٹک اتنا اس کو تو کہہ دیجیو صبا
جاوے اگر ہمارے تغافل شعار تک
جینے کی صورت اس کی ٹھہرتی ہے کوئی دم
اس وقت میں بھی پہنچو جو اس بیقرار تک
کہہ اس زمیں میں ایک غزل اور بھی حسنؔ
ہے تیری طبع کہنے پر اب تو ہزار تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |