ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم
اس کُو میں جا مریں گے مدد اے ہجومِ شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
بے روئے مثلِ ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خارِ راہِ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم
کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھے
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دمِ بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشمِ پری سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |