319596ٹیلی فونمرزا عظیم بیگ چغتائی

بیسویں صدی کی بہترین ایجاد، کیا بلحاظ فوائد بنی نوع انسان اور کیا بلحاظ آرام و آسائش، اگر ہے تو ٹیلی فون ہے۔

(۱)

مندرجہ بالا اقتباس میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں نے نہایت ہی اطمینان سے اپنی میز پر نظر ڈالی اور کیوں نہ ڈالتا کہ میں بھی ایک ٹیلی فون کے سیٹ کا ملک تھا۔ میرے گھر میں بھی ٹیلی فون تھا۔ قبل اس کے کہ میں کچھ عرض کروں گزارش ہے کہ حضرت نہ تو میں کوئی وبال ہوں اور نہ قہرِ خدا ہوں اور نہ موذی ہوں اور نہ خلق خدا کی آسائش کا دشمن ہوں، بلکہ ایک ادنی اور نہایت ہی ادنیٰ پبلک کا خادم ہوں۔ مگر ساتھ ہی یہ ایک مجسم حقیقت ہے کہ میں بلا شرکت غیرے ایک ٹیلی فون کے سیٹ کا مالک بھی ہوں اور خداوند تعالیٰ نے وہ فوائد اور تمام وہ آسائشیں میری تقدیر میں لکھ دیں ہیں جو ٹیلی فون کے سیٹ رکھنے والے کا حصہ ہیں۔

تو میں پھر عرض کرتا ہوں کہ حضرت نہ تو میرا دماغ خراب ہوگیا ہے اور نہ میں موذی ہوں، بلکہ پبلک کا ایک ادنی خادم ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میرے گھر میں ٹیلی فون ہے، میں اس کے فوائد کا حقدار ہوں۔ سو کچھ اس وقت جی بھی گھبرا رہا تھا۔ چنانچہ میں نے ٹیلی فون کے پاس نہایت ہی اطمینان سے کرسی پر بیٹھ کر آلہ اٹھا کر کان اور منہ سے بیک وقت لگا لیا۔

ایکسچینج نے کہا، ’’نمبر پلیز، کون سا نمبر مانگتے ہیں آپ؟‘‘ چونکہ مجھے در اصل کسی نمبر کی بھی ضرورت نہ تھی، لہٰذا میں نے بلا تامل کہہ دیا، ’’نمبر ۱۲ سے ملا دیجیے۔‘‘ نمبر ۱۲ کو اطلاع، اور اب وہ آئے اور بولے، ’’جی۔ آپ کہاں سے بولتے ہیں؟‘‘ میں نے بھی یہی سوال کر دیا اور کہا، ’’آپ کون صاحب ہیں؟‘‘

’’بوٹ و شوز مرچنٹ!‘‘

’’دیکھیے جناب!‘‘ میں نے کہا، ’’ہم گورنمنٹ ٹھیکیدار ہیں۔ احمد حسین محمد حسین اور دہلی نمبر ۴۸ سے باتیں کرتے ہیں۔ در اصل ہمیں دو ہزار سیاہ رنگ کے گورا شاہی فوجی بوٹ درکار ہیں۔ براہ مہربانی فرمائیے کہ کیا دام ہوں گے اور کتنے دنوں میں آپ دے سکیں گے؟‘‘ بہت خوش ہو کر اس طرف سے وہ بولے، ’’ہم ڈیڑھ مہینے کے اندر اندر مال دے سکتے ہیں، اور قیمت کے بارے میں عرض ہے کہ بارہ روپیہ فی جوڑا ہوگا۔‘‘ قدرتاً میں نے کہا، ’’یہ بہت زیادہ ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے کچھ چمڑے وغیرہ کے بارے میں تفصیلی بحث کی اور نتیجہ اس کا یہ رہا کہ جب میں نے قیمت نامنظور کردی تو انہوں نے کہا کہ ہم خود تھوڑی دیر بعد مفصل تخمینہ بنا کر مطلع کریں گے۔

(۲)

ایک دوسرے صاحب سے سلسلہ ملایا۔ بعد ’’آپ کون اور آپ کون‘‘ کے انہوں نے کہا۔ ’’ہم ہڈی پیستے ہیں، ہڈی پیسنے کا کارخانہ ہے۔‘‘

اوہو! میں نے دل میں کہا، یہی وہ لوگ ہیں جو شکر میں ہڈی ملا ملا کر سینکڑوں ہندو مسلمانوں کو عیسائی بنا چکے۔ خیر۔۔۔ مگر اس وقت میں نےمجبوراً ان سے کہا، ’’ہم ہڈی فروخت کرتے ہیں۔۔۔ تاجر ہیں ہڈی کے، آپ لیں گے؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’اپنا نرخ بتائیے اور پھر کس قسم کی ہڈی ہوگی۔‘‘ اب میری سمجھ میں نہ آیا کہ تولے کے حساب سے نرخ دوں یا من کے حساب سے۔ غلطی سے بچنے کی نیت سے میں نے کہا، ’’آپ جس بھاؤ دوسرے ٹھیکیداروں سے لیتے ہیں اسی پر ہم سے لے لیجیے۔‘‘

’’ہم ساٹھ روپے فی ویگن لیتے ہیں اور ثابت ہڈی لیتے ہیں۔ آپ کتنی دے سکیں گے؟‘‘ اب میں نے سوچا کہ انہیں بہترین مال دینا چاہیے اور پھر ان پر اپنی تجارت کا رعب جما دینا چاہیے، چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’ہمارے پاس چالیس ہزار مسلم ڈھانچے موجود ہیں۔ ہم ویگن کے حساب سے نہیں دے سکتے، کیونکہ ہمیں مسلم ڈھانچے توڑنے پڑیں گے۔ بہتر ہے کہ آپ فی ڈھانچہ ہم سے نرخ طے کر لیں۔‘‘

’’ہیں!‘‘ انہوں نے سخت تعجب سے کہا، ’’چالیس ہزار ڈھانچہ۔۔۔ مسلم۔‘‘

’’جی۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’بیشک اور پھر چھوٹے عدد بھی موجود ہیں۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’خرگوش کے ڈھانچے۔‘‘

’’مت بکو۔‘‘ انہوں نے کہا۔ میں نے کہا، ’’ہشت۔‘‘ ختم سلسلہ۔

(۳)

اس کے بعد شہر کے مشہور سیٹھ صاحب کی نل اور پائپ کی دکان سے سلسلہ جنبانی کر کے بعد تبادلہ ’’آپ کون؟‘‘، مؤدبانہ طریقہ سے میں نے عرض کیا کہ ’’ہم گورنمنٹ ٹھیکیدار ہیں اور دہلی نمبر ۵۳ سے بولتے ہیں۔‘‘ وہ بولے، ’’کیا چاہیے؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہم انجینئر لوگ ہیں اور دریائے چنبل کا صاف پانی نئی دہلی میں لانے کا گورنمنٹ سے ہم نے ٹھیکہ لے لیا ہے اور اس کے واسطے ہمیں بہت لمبا چوڑا پائپ درار ہے۔‘‘

’’کتنا چوڑا؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’لمبائی بھی بتائیے گا۔‘‘

میں نے جواب دیا کہ ’’بہت چوڑا۔‘‘

’’آخر کتنا؟‘‘

’’بہت چوڑا!‘‘

’’پھر بھی؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’اور لمبائی؟‘‘

’’یہی کوئی آٹھ فٹ چوڑا چاہیے۔ لمبائی تین چار سو میل ہوگی۔‘‘

’’آٹھ فٹ چوڑا!‘‘ تعجب سے انہوں نے کہا۔

’’جی۔‘‘

’’اور پھر تین سو میل میں آپ ٹکڑے کتنے چاہتے ہیں؟‘‘

’’بس ایک ٹکڑا چاہیے۔‘‘

’’ہیں!‘‘ انہوں نے کہا، ’’آپ مذاق کرتے ہیں۔‘‘

’’آپ کی جان عزیز کی قسم۔‘‘ میں نے کہا، ’’مذاق سے مجھے کیا سروکار۔‘‘

ضرور بالضرور، یہ مجھ سے زیادہ بے وقوف تھے، کہنے لگے، ’’ہم دس دس فٹ کے ٹکڑے دے سکتے ہیں، مگر نرخ بعد میں بتائیں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’بہتر ہے، مگر دیکھیے اگر نل ٹپکایا ٹوٹا تو دام نہ دیں گے۔‘‘ وہ راضی ہوگئے اور لطف تو دیکھیے کہ انہوں نے سچ مچ حساب بٹھا کر کچھ عرصہ بعد دہلی نمبر ۵۳ سےکچھ اس کے بارے میں کہا۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے، انہوں نے جو یہ لغویات وغیرہ سنیں تو کہا کہ جلد آپ سلسلہ منقطع کریں ورنہ ابھی کرتا ہوں میں آگرے کے پاگل خانے کوٹیلی فون۔ یہ بعد میں معلوم ہوا۔

(۴)

اس کے بعد ہی میں ایک تیل پیلنے کے کارخانے سے واقعی معاملے کی گفت و شنید کر رہا تھا۔ چونکہ دوپہر کے وقت مالکان کارخانہ لازمی طور پر آرام فرماتے ہیں اور ٹیلی فون پر منیب جی ہوتے ہیں۔ لہٰذا سلسلۂ گفتگو شروع ہوتے ہی میں نے قیاس دوڑایا، ’’منیب جی ہیں؟‘‘ وہ بولے، ’’جی ہاں!‘‘ میں نے کہا، ’’نمستے۔ ذرا لالہ جی کو بلائیے۔‘‘ (میں جانتا تھا کہ لالہ صاحب سو رہے ہوں گے۔)

منیب جی بولے، ’’وہ سو رہے ہیں اور تاکید کردی تھی کہ مت جگانا۔‘‘

’’مگر تم انہیں جگا دو، کہنا کہ احمد بھائی بلاتا ہے، سخت ضروری کام ہے۔‘‘ مجبوراً لالہ صاحب آئے اور بعد نمستے میں نے عرض کیا، ’’ہمیں دو لاکھ من سرسوں کا تیل پلوانا ہے، کیا نرخ ہوگا؟‘‘ لالہ صاحب بولے، ’’کیا اسی لیے ہمیں جگایا۔ منیب جی سے نہ پوچھ لیا۔‘‘ میں نے عرض کیا، ’’میں روپیہ پیشگی منیب جی کو نہیں دے سکتا تھا، آپ کو دوں گا۔‘‘ اس کا جواب لالہ صاحب نے دیا۔ ہم ’باہری‘سرسوں نہیں پیلتے ہیں۔ میں نے عرض کیا، ’’مگر یہ تو ’اندری‘ ہے۔ سودیشی سرسوں۔‘‘

’’ہمیں اپنے سرسوں سے فرصت نہیں، اپنے کام سے مہلت نہیں ہے۔‘‘

بہت کچھ اونچ نیچ سمجھا کر اور نقد رقم پیشگی کی دھمکیاں دے کر جو میں نے نرخ پوچھا تو لالہ جی نے تین روپے من مانگا۔ بڑی مشکل سے ڈھائی روپے من طے ہوا۔ بشرطیکہ میں پچاس ہزار کا چیک پیشگی دے دوں۔ مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا۔ مگر میں نے اب کچھ مزید تشریح کی۔ ظاہر ہے کہ سرسوں پیلی جائے گی تو کھلی بھی ہوگی۔ تیل کو کام میں لے آؤں گا مگر آپ غور کریں کہ آخر اتنی کھلی کا میں کیا کروں گا۔ چنانچہ میں نے لالہ صاحب سے کہا، ’’مگر یہ تو بتائیے کہ کھلی آپ کیا بھاؤ لیں گے؟‘‘

لالہ جی نے کہا، ’’ہم کھلی نہیں لیں گے۔‘‘

’’کھلی تو آپ کو لینا پڑے گی۔‘‘ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔

’’ہم کھلی ولی نہیں لیں گے۔‘‘ کچھ چیں بہ جیں ہو کر۔

’’کھلی تو آپ کو لینا پڑے گی۔‘‘ زور دے کر میں نے کہا، ’’مذاق نباشد، مجبوراً لینی ہوگی۔‘‘

’’ہم نہیں لیتے، یہ کون سا قاعدہ ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہم قاعدہ واعدہ کچھ نہیں جانتے۔ کان کھول کر سن لیجیے، کھلی آپ کو جبراً لینا ہوگی، ورنہ۔۔۔‘‘

’’ہم سرسوں نہیں پیلتے۔‘‘

’’پیلنا پڑے گی۔‘‘ میں نے خفا ہو کر کہا، مگر وہ ٹیلی فون چھوڑ چکے تھے۔

(۵)

اس کے بعد ایک حاجی صاحب سے سلسلہ ملایا۔ بخدا کس قدر تلخ اور کس قدر درشتی سے انہوں نے میرے کان میں جیسے پھاؤڑا مارا ہے، ’’کون۔ کون ہو۔ و۔۔۔ و۔۔۔‘‘ برجستہ میں نے بھی کہا، ’’ملک الموت۔ چلو جہنم کی طرف۔‘‘

’’مردود!‘‘ انہوں نے تڑپ کر کہا۔

’’گھوڑے!‘‘ میں نے ڈپٹ کر کہا۔ (سلسلہ ختم)

(۶)

اس کے بعد ایک اور صاحب سے سلسلہ ملایا۔ ’’کون ہے؟‘‘ انہوں نے ایسی آواز میں کہا جیسے ان کے ڈاڑھی ہے اور قبل اس کے کہ میں بولوں خود ہی جواب دیا، ’’حسرت۔۔۔ او حسرت۔۔۔ حسرت۔۔۔ ارے حسرت۔‘‘ مجبوراً مجھے کہنا پڑا ’’جی۔‘‘ وہ بولے گالی دے کر، ’’کیا مر گیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں۔ ابھی قبرستان سے آرہا ہوں۔‘‘ اس پر انہوں نے وہ گالی دی ہے کہ میں نے خود سلسلہ توڑ دیا۔

(۷)

اس کے بعد ایک نوجوان گریجویٹ سے سلسلہ ملا۔ نہایت ہی ہونہار اور قابل واقع ہوئے تھے اور حال ہی میں ایک مضمون حمایت نسواں پر بڑے معرکہ کا ’’پانیر‘‘ میں دے چکے تھے۔ جب انہوں نے اپنا نام بتایا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ وہ حضرت ہیں۔ چنانچہ میں نے مضمون کا ذکر کرکے مبارک باد پیش کی۔

’’شکریہ۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’آپ نے وہ میرا مضمون پڑھا تھا؟‘‘ خوش ہو کر انہوں نے پوچھا۔

’’جی ہاں۔ میں نے بڑے شوق سے اسے پڑھا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔


’’میں نے بڑی محنت سے اسے لکھا تھا۔ آپ کو کچھ پسند بھی آیا؟‘‘

آپ خود خیال فرمائیے کہ اب میری خطا تھی یا خود ان کی۔ مضمون کی میں تعریف کر چکا، مبارک باد عرض کر چکا، پھر بار بار پوچھتے ہیں کہ پڑھا بھی تھا، اور اب کہتے ہیں کہ آبیل مجھے مار! میں نے سوچا دل میں کہ یہ یوں نہ مانیں گے، لہٰذا میں نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے بے حد پسند آیا مگر ایک بات تو بتائیے۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘ انہوں نے خوش ہوکر پوچھا، ’’فرمائیے۔‘‘

’’آپ نے اسے کہاں سے نقل کیا تھا؟‘‘ میں نے سادگی سے پوچھا۔

جیسے بھنا کر انہوں نے کہا، ’’یہ تو بتائیے جناب کرتے کیا ہیں؟‘‘

’’میں چلتا ہوں، کھاتا ہوں، پہنتا ہوں۔‘‘ کہ اتنے میں برابر کی میز پر گھڑی کا الارم بولا تو میں نے وہی اٹھا کر ٹیلی فون کے آلے پر لگا دیا۔

(۸)

دوسری جگہ ملایا۔

وہ، ’’آپ کس نمبر سے بولتے ہیں؟‘‘

میں، ’’آپ کس نمبر سے بولتے ہیں؟‘‘

وہ، ’’آپ کون صاحب ہیں؟‘‘

میں، ’’آپ کون صاحب ہیں؟‘‘

وہ، ’’میرا نام کلب علی خان اور آپ کا نام؟‘‘

میں، ’’شتر محمد خاں۔‘‘ (گھڑی کا الارم لگا دیا)

(۹)

شاید کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا اتفاق ہوا ہو کہ غلطی سے بجائے کسی دوسرے نمبر کے کسی کا سلسلہ آپ سے مل گیا ہو اور آپ نے غلطی محسوس کر کے ذرا بھی غلطی کو نباہنے کی کوشش نہ کی ہو۔ اکثر کوئی اس طرح بات پوچھے تو آپ فوراً کہہ دیں گے کہ معاف کیجیے گا، معلوم ہوتا ہے غلط نمبر مل گیا ہے۔ میری دانست میں ایسا کرنا خدائی ناشکری اور خود ٹیلی فون کے موجد کی جدتِ طبع کی توہین ہے۔ اس مختصر تمہید کے بعد عرض ہے کہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب کس نمبر سے ملاؤں کہ خود کسی نے مجھے گھنٹی دی۔ زہے قسمت کہہ کر میں نے آلہ اٹھایا۔ اس طرف سےکسی نے کہا، ’’نمستے۔‘‘

’’نمستے۔‘‘

’’کہیے ٹھاکر صاحب کیسے ہیں؟ کوئی تار کا جواب آیا؟‘‘

فوراً میں نے جواب دیا، ’’ٹھاکر صاحب تو مر گئے۔‘‘

قاعدہ ہے کہ اگر آپ جواب دینے میں ذرا بھی تساہل کریں گے تو میری دانست میں شاید ٹیلی فون کے موجد کی دماغ سوزی کی داد دینے سے آپ قاصر رہیں گے۔ ایسے موقعوں پر چاہیے کہ برجستگی سے کام لیا جائے جیسا کہ میں نے کہا۔ در اصل ہر وہ شخص جس کے یہاں ٹیلیفون ہے بہت آسانی سے اس مخصوص فائدہ سے بہرہ اندوز ہونے کی بڑی آسانی سے صلاحیت پیدا کر سکتا ہے۔ اگر وہ مجبور ہے تو اس کی تیرہ بختی۔ جب میں نے یہ روح فرسا پیغام ادھر پہنچایا تو وہ حضرت تو ’’ارے‘‘ کہہ کر ہٹ گئے اور دوسرے صاحب آئے اور خدا ان کا بھلا کرے کہ انہوں نے مجھے میرا نام بتایا، کہنے لگے، ’’دیکھو شام جی ذرا بڑے بابو جی کو بھیج دو۔‘‘

میں نے کہا، ’’بہت اچھا۔‘‘ تو وہ بولے کہ ’’جلدی کرو۔‘‘ میں نے بھی کہا، ’’جلدی ہی لو۔‘‘ چنانچہ بہت جلد مجھے بڑے بابوجی کی حیثیت سے گفتگو کرنے کا فخر حاصل ہوا۔ میں نے ضرورتاً نہیں بلکہ احتیاطاً کچھ آواز بھی بدل دی۔ جب انہوں نے معلوم کر لیا کہ بڑے بابوجی آگئے تو وہ حضرت مجھ سے بولے، ’’بڑے بابوجی ہیں۔۔۔ ہاں تو دیکھیے وہ بلٹی تو آپ نے واپس نہیں کی ہے نا۔‘‘

واللہ اعلم یہ کیسی بلٹی تھی اور میں صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہا کہ کیا جواب مناسب ہوگا، لہٰذا میں نے بھی ذرا گول جواب دیا۔ ’’واپس تو ابھی نہیں کی ہے مگر کر رہے ہیں۔‘‘ وہ گھبرا کر بولے، ’’ارے! واہ صاحب! یہ آخر کیوں؟‘‘ میں چوں کہ کوئی مناسب وجہ نہ بتا سکتا تھا لہٰذا مجبوراً میں نے اور ہی رویہ اختیار کیا۔ ذرا کرختگی سے میں نے کہا، ’’ہماری مرضی۔‘‘

’’ہم نے پیشگی روپیہ دے دیا ہے تب بھی آپ واپس کردیں گے۔‘‘

میں نے کہا، ’’ہاں۔‘‘

’’یہ کیوں؟‘‘ انہوں نے تیز ہوکر کہا، ’’ہم پیشگی روپیہ دے چکے ہیں اور اب۔۔۔‘‘ بات کاٹ کر میں نے بھی ڈپٹ کر کہا، ’’ہم پیشگی ویشگی کچھ نہیں جانتے۔ ہم بلٹی واپس کر رہے ہیں۔‘‘

’’غضب ہو جائے گا۔‘‘ وہ گھبرا کر بولے، ’’ہزاروں کا نقصان ہو جائے گا، آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔‘‘

’’ہم تمہاری غلطیوں کے ذمہ دار نہیں۔‘‘ تیز ہو کر میں نے کہا۔

اتنے میں کسی دوسرے نے اُدھر سے ٹیلی فون لیا۔ جو غالباً اس کے پاس ہی کھڑا سب سن رہا تھا اور اس نے تیز ہو کر کہا، ’’آپ کس قاعدے سے بلٹی واپس کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہم کوئی قاعدہ واعدہ نہیں جانتے۔‘‘ وہ بولے، ’’آپ کی تحریر اور وعدہ موجود ہے کہ تین روز تک بلٹی واپس نہیں کریں گے اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں۔‘‘

’’ہم نہیں جانتے۔‘‘ میں نے ڈانٹ کر کہا، ’’ہم تو اب بغیر بلٹی واپس کیے ہرگز نہ مانیں گے۔‘‘ جب انہوں نے حجت اور بحث کی تو میں نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

(۱۰)

اب ایک نیا لطیفہ سنیے۔ وہ نمبر ۱۲جوتے والے جن سےمیں نے سب سے پہلے بات چیت کی تھی اور جوتوں کا نرخ پوچھا تھا، وہ اتفاقاً اس دہلی کے فرضی نمبر کو بھول گئے جو میں نے انہیں بتایا تھا۔ مجبوراً انہوں نے ایکسچینج سے کہا کہ ہم دہلی کے اس نمبر سے بات کرنا چاہتے ہیں جس نمبر نے خود ہم سے گھنٹہ دوگھنٹہ ہوئے بات کی تھی۔ ایکسچینج نے کہا کہ حضرت آپ سے تو کیا دہلی سے تو آج کسی سے بھی شہر میں سلسلہ نہیں ملا۔ ہاں نمبر ۴۲ (میرا نمبر) نے البتہ آپ سے سلسلہ ملایا تھا۔ اس پر جب انہوں نے اطمینان پورا پورا کرلیا کہ کہ محض مذاق تھا تو ایکسچینج سے کہا کہ خیر کچھ بھی ہو ہمیں تم اس نمبر سے ملا دو جس نے ہم سے بات کی تھی۔ خواہ وہ دہلی کے ہوں یا شہر کے چنانچہ اس نے مجھ سے سلسلہ ملا دیا اور انہوں نے اس خادم کو گھنٹی دی۔

’’آپ نمبر ۴۲ سے بولتے ہیں؟‘‘ انہوں نے بغیر میرا جواب لیے ہوئے کہا، ’’اور میں نمبر ۱۲جوتوں کی دکان سے بولتا ہوں۔ بھلا اس قسم کے مذاق سے کیا فائدہ۔‘‘

میں نے کہا، ’’آپ جوتوں کی دکان سے بولتے ہیں؟‘‘

وہ بولے، ’’ہاں۔‘‘

میں نے کہا، ’’پھر جناب اس میں مذاق اور بحث کی کیا گنجائش، بتائیے جلدی سے جوتوں کا نرخ ورنہ ہم دوسری جگہ سے سودا کرلیں گے۔‘‘ وہ اس پر کچھ عامیانہ مذاق فرمانے لگے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہوئیں کہ جنت میں ایک ایک کے عوض ستر ملیں گے۔ نتیجہ یہ کہ میں نے مجبوراً گھڑی کا الارم لگا دیا اور یوں سلسلہ کو ختم کیا۔

اب میں نے سوچا کہ اس کو کیا حق حاصل تھا کہ مجھ سے جواب طلب کرے، شاید اس کو نہیں معلوم کہ مجھے بھی فرصت ہے، چنانچہ میں نے پھر کوئی دس منٹ بعد ہی ان کو پکارا اور کہا، ’’حضرت وہ جوتوں کا نرخ آپ نے نہ بتایا، ہم دہلی سے بولتے ہیں اور کاروباری آدمی ہیں، نقصان ہو رہا ہے ہمارا۔‘‘ اس پر وہ ہنسنے لگے اور لگے برجستگی دکھانے۔ سلسلہ ختم ہو گیا۔ لیکن اب میں ٹیلی فون سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ گھڑی لے کر بیٹھ گیا اور ادھر دس منٹ گزرے اور میں نے انہیں گھنٹی دی اور بس یہی سوال کہ ’’ہم دلی کے سوداگر ہیں، براہ کرم جوتوں کا نرخ بتائیے۔‘‘

تھوڑی دیر کے بعد مذاق سے اترکر یہ حضرت گالی گلوچ پر اترآئے اور ادھر میں نے خریداری کا تقاضا ذرا اور سخت کیا۔ یعنی بجائے ہر دس منٹ کی حاضری کے پانچ منٹ کی قید لگا دی۔ آپ کہیں گے کہ ان کی حماقت تھی، آخر چپ کیوں نہ ہو رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت آپ خود ٹیلی فون لگا کر جوتے کی دکان کھولیں تو اس کا اندازہ ہو۔ دکان دار کو ہر ٹیلی فون کی گھنٹی پر شملہ اور نینی تال کا فوجی آرڈر سنائی دیتا ہے۔ اگر ایک گھنٹی خالی گئی تو ممکن ہے ہزاروں روپے پر پانی پھر جائے۔ قصہ مختصر ہر مرتبہ ان کو آنا پڑتا اور نتیجہ یہ نکلتا کہ گالی گلوچ۔ کچھ دیر بعد ہی جب انہوں نے دیکھا کہ یہ عجیب وغریب خریدار پیچھا ہی نہیں چھوڑتا تو ایکسچینج سے شکایت کردی کہ خبردار جو اس نمبر سے ہمارا نمبر ملایا۔

اب جو میں نے ایکسچینج سے نمبر ۱۲مانگا تو جواب دیا کہ ’’آپ ان کو دق کر رہے ہیں، یہ جرم ہے۔‘‘ دیکھا آپ نے لاچاری اس کا نام ہے۔ مجبوراً قہر درویش بر جان درویش۔ چھوڑ چھاڑ کر میں بھی ٹیلیفون سے سیر ہوکر الگ ہوا۔ مجھے اب ٹیلی فون کے موجد پر غصہ آ رہا تھا کہ کیوں نہ اس بات کا اس نے کوئی تدارک کیا۔ بڑی دیر تک سوچتا رہا۔ کچھ عقل نے کام نہ کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ ٹیلی فون میں یہ بڑی خامی ہے، لیکن دماغ لڑاتا ہی رہا۔ کوئی دو گھنٹہ بعد وہ دور کی کوڑی لایا ہوں کہ دوڑا ٹیلی فون کی طرف، پورا فائدہ ٹیلی فون سے اٹھانے۔

’’ایکسچینج، ایکسچینج!‘‘ میں نے زور سے پکارا۔ ’’دیکھیے، کیا میرے یہاں سے کسی نے آج نمبر ۱۲ کو پریشان کیا۔‘‘

ایکس چینج نے کہا، ’’جناب من نمبر ۱۲ کو آپ کے یہاں سے سخت شکایت ہے۔ ان کو تو آج آپ کے یہاں سے کسی نے بہت دق کیا۔‘‘

’’دیکھیے۔‘‘ میں نے زور سے کہا، ’’دیکھیے، میری طرف سے ان سے معافی مانگئے گا اور عرض کیجیے گا کہ میں شکار کو گیا تھا، آج کمرہ کھلا رہ گیا۔ بچوں نے سخت نالائقی کی اور میں بے حد شرمندہ ہوں۔ بلکہ میں خود ان سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ آپ ملا تو دیجیے۔‘‘

’’مگر انہوں نے منع کر دیا ہے۔‘‘ ایکسچینج نے جواب دیا۔

’’آپ ان سے دریافت کرلیں۔‘‘ میں نے کہا۔

بہت جلد ہی گھنٹی آئی، واہ رے ٹیلی فون کے موجد، میں نے دل میں کہا، کیا ایجاد ہے۔ سلسلہ نمبر ۱۲ سے پھر مل گیا۔

نہایت ہی تپاک سے میں نے نمبر ۱۲ سے کہا، ’’معاف کیجیے گا۔ جناب کو آج میری ذرا سی لاپرواہی سے بڑی زحمت ہوئی۔ نوکر نے مجھے سے کہا کہ ’’نمبر۱۲‘‘ آج لڑکے پکار رہے تھے اور سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دوبچوں کو تو میں نے ادھیڑ کر ڈال دیا، سسک رہے ہیں اور تیسرے کو ملازم پکڑنے گیا ہے۔‘‘

’’واللہ آپ یہ کیا غضب کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے پریشان ہو کر کہا، ’’آپ کو میرے سر کی قسم جو بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں، بچے تو شریر ہوتے ہی ہیں۔‘‘

’’مگر میں تو بغیر سزا دیے نہ مانوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔ وہ بولے، ’’بخدا آپ میرے اوپر ظلم کریں گے جو بچے کو مارا اور جن بچوں کو آپ نے مارا ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ میرے اوپر ظلم کیا۔ میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں جو آپ نے بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔‘‘

’’مگر مجھے آپ سے جو سخت شرمندگی ہے۔‘‘

’’آپ کچھ پروانہ کریں۔‘‘

’’مگر مجھے سخت ندامت ہی نہیں بلکہ صدمہ ہوا کہ آپ کو پریشانی ہوئی۔‘‘

وہ بولے، ’’آپ تو کمال کرتے ہیں۔ کوئی بات بھی ہو آخر۔‘‘

میں نے کہا، ’’اچھا تو پھر آپ بتائیے کہ دل سے آپ نے معاف کیا۔‘‘

’’واللہ۔‘‘ وہ بولے، ’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ ذرہ بھر مجھے خیال نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کی عنایت کا کس زبان سے شکریہ ادا کروں، مگر ایک عرض ہے، اگر اجازت ہو تو۔۔۔‘‘ وہ بولے، ’’احی حضرت ایک نہیں دو فرمائیے۔ ارشاد۔‘‘ میں نے کہا، ’’براہ کرم ان جوتوں کا نرخ بتا ہی دیجیے۔‘‘

اب میں آپ سے کیا عرض کروں کہ انہوں نے کیا کہا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ گویا بارود میں آگ لگ گئی۔ ادھر انہوں نے مغلظات شروع کی ہیں اور اِدھر میں نے گھڑی کا الارم لگا دیا۔

عرض یہ کہ اس خادم کے یہاں ٹیلی فون ہے اور دوچار دوستوں کے یہاں بھی یہ مفید سلسلہ جاری ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ مجھے ٹیلی فون سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا اور مجھے اب نمبر ۱۲سے شرف سلسلہ حاصل نہ ہوسکے گا تو مجبوراً میں نے بذریعہ ٹیلی فون دو تین اور احباب کو اس راز سے آگاہ کیا۔ انہوں نے جو اس میں خوبیاں اور فوائد دیکھے تو وہ ہاتھ دھو کر نمبر ۱۲ کی جان کے پیچھے پڑگئے اور ایک لامتناہی سلسلہ چھیڑ دیا کہ نرخ جوتوں کا بتاؤ ہم دہلی سے بولتے ہیں۔ پھر بدقسمتی سے میرے ان دوستوں نے اپنے اپنے دوستوں کو خبر کی اور ان لوگوں نے اپنے اور دوستوں کے دوستوں کو آگاہ کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے ’یک انار و صد بیمار ایکسچینج والا خود ایک بلا میں گرفتار ہوگیا اور جسے دیکھیے وہ نمبر ۱۲ سے بات کرنے کا خواہاں ہے۔

جس روز کا یہ ذکر ہے، اس رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میرے پاس دم دم پہ رپورٹیں بذریعہ ٹیلی فون آتی تھیں۔ مجھے کیوں نہ فخر ہو۔ اگر ٹیلی فون کے موجد کی ذہانت قابل داد ہے تو ٹیلی فون سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنا میں جانتا ہوں۔ شام کو جو رپورٹ میرے پاس آئی، اس سے معلوم ہوا کہ نمبر۱۲ ’’عجیب پسپائیت کے عالم‘‘ میں ہے۔ وہ تیزی اور وہ حرارت کافور ہوگئی، جو شروع میں تھی اور اب تو بڑی حسرت سے کہتے ہیں اور وہ بھی بڑے پر درد لہجہ میں۔ ’’ابے موذی! کیوں میری جان کے پیچھے پڑا ہے۔ شام کا وقت ہے۔ گاہک چھوڑ چھوڑ کر آتا ہوں۔ خدا کے واسطے میری جان چھوڑ۔‘‘

دوسرے روز دکان نمبر ۱۲ کے مالک مجھ سے ملنے آئے۔ میں باہر برآمدے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ مجھے انہوں نے مفصل قصہ سنایا۔ میں نے سب سے پہلے تو حیرت و استعجاب کا اظہار کیا بلکہ یقین کرنے سے انکار کیا، پھر بڑی مشکل سے یقین کیا۔

’’میرے یہاں سے! میرے یہاں سے۔۔۔! آپ کو۔۔۔ ناممکن! ہر وقت ٹیلی فون کے کمرے میں تالا پڑا رہتا ہے۔۔۔ مجال نہیں کسی کی جو کوئی چھو بھی سکے۔ میں کل متھرا گیا تھا تو تالا ڈال کر گیا۔۔۔ آج ہی رات تو کمرہ کھولا ہے۔۔۔ (مسکرا کر) غلطی ہوئی ہوگی۔۔۔ کوئی اور نمبر ہوگا۔۔۔ (پھر اس کے بعد) ممکن ہے کوئی اور صاحب! میں عرض نہیں کر سکتا۔۔۔ میری تو عقل کام نہیں کرتی۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ میں کیا تدبیر بتاؤں۔۔۔ میں اول اس معمے کو ہی کو سمجھوں کہ میرے یہاں سے کسی نے کیسے بات کی تب کہیں دماغ بھی لڑاؤں۔۔۔ (پھر اس کے بعد) بڑے افسوس کی بات ہے۔۔۔ لا حول و لا قوۃ۔۔۔ سخت ذلیل حرکت ہے۔۔۔ ہیں ناہم لوگ آخر کو ہندوستانی۔۔۔ بھلا ایسا یورپ میں ہو تو کا ہے کو دنیا کا کام چلے۔۔۔ آپ سٹی مجسٹریٹ کو رپورٹ کریں۔۔۔ ایکسچینج والے کلرک پر دعویٰ کریں۔ ہو نہ ہو اسی کی بدمعاشی ہے وغیرہ وغیرہ‘‘ غرض اسی قسم کی باتیں کر کے انہیں رخصت کیا۔

دوتین ہی دن میں عجیب حال ہوگیا۔ ایک آنریری مجسٹریٹ تھے بڈھے سے، انہوں نے اول روز جب سنا تو اپنے نواسوں کو مارا، لیکن تیسرے روز سنا تو کچھ مسکرا کر بولے کہ ’’آج ہم نے بھی سوچا کہ لاؤ دیکھیں کہ یہ نمبر ۱۲ والا کیا کہتا ہے، تو وہ تو بڑا بدمعاش ہے، بڑی گالیاں دیتا ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ کون بھلا مانس ہوگا جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھولیا ہوگا۔

(۱۱)

پانچویں روز ہی سب معاملہ سرد ہونا شروع ہوا۔ نمبر ۱۲ نے اب عقل مندی سے کام لیا۔ ٹیلی فون پر آتے، کان سےآلہ لگاتے مگر بندہ خدا بات نہ کرتے۔ یعنی جواب ہی نہ دیتے۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو مایوس ہو کر بیٹھنا شروع ہوئے۔ اس میں نمبر ۱۲ کو بڑی کامیابی ہوئی اور قریب قریب معاملہ سرد پڑ گیا تھا کہ میں ایک صاحب کے یہاں پہنچا۔ کسی قدر کبیدہ خاطر اور مغموم ہو کر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر نمبر۱۲ کی خاموشی کی مجھ سے شکایت کی کہ میرا دل لرز گیا۔ میں نےانہیں اطمینان دلایا کہ خدا کار ساز حقیقی ہے۔ وہ مجیب الدعوات ہے۔ ذرا ٹیلی فون کا آلہ ادھر تو لاؤ۔ وہ لے آئے۔ میں نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

’’ایکسچینج۔۔۔۱۲‘‘

سلسلہ نمبر ۱۲ سے مل گیا اور اب مجھے معلوم تھا کہ اگر جوتوں کا نرخ پوچھوں گا تو یہ حضرت چپ چاپ آلہ لگا کر گاؤ تکیہ پر جا بیٹھیں گے۔ لہٰذا میں نےکہا، ’’دیکھیے۔۔۔ دروغہ جی ہیں؟‘‘ نمبر ۱۲ کو مجبوراً بولنا پڑا، ’’کون دروغہ؟‘‘

’’کوتوالی سے بولتے ہیں نا آپ؟‘‘ میں نےکہا، ’’ذراچھوٹے تھانیدار صاحب کو بھیج دیجیے ٹیلی فون پر۔۔۔‘‘ نمبر ۱۲ نے کہا، ’’یہ کوتوالی نہیں ہے!‘‘

میں، ’’پھر؟‘‘

نمبر۱۲، یہ تو نمبر ۱۲ جوتوں کی دکان ہے۔ آپ کو غلطی ہوئی ہے۔‘‘

میں، ’’جوتوں کی دکان ہے؟‘‘

نمبر ۱۲، ’’جی ہاں۔‘‘

میں، ’’اچھا تو پھر جوتوں کا نرخ ذرا بتا دیجیے گا۔‘‘

کیا عرض کروں کہ کیا کچھ ان کانوں نے سنا، وہ وہ مغلظات سننے میں آئی ہیں کہ بیان سے باہر۔ اب اس نسخے کا دریافت ہونا تھا کہ ایک نیا سلسلہ چھڑ گیا۔ نمبر۱۲ سے سلسلہ ملوا کر کوئی تو حکیم جی کو پوچھتا ہے تو کوئی پیر جی کو، اور کوئی شیخ جی کو پوچھتا ہے، تو کوئی پنڈت جی کو اور پھر اس میں لوگوں نے وہ وہ اختراعیں کی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کوئی کہتا ہے کہ ’’میں گھڑی شام کو بھیج دوں گا۔‘‘ نمبر۱۲ کہتے ہیں کیسی گھڑی۔ آپ کو غلطی ہوئی ہے۔ وہ بات کرنے والا اپنی غلطی معلوم کرتے ہی جوتوں کا نرخ پوچھتا ہے۔

ایک صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ بڑی لمبی چوڑی تمہید اٹھانے کے بعد بڑی دیر میں جوتوں کا نرخ اس قدر گھما پھرا کر پوچھا ہے کہ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ نہ معلوم انہوں نے کس طرح بہلا پھسلا کر نمبر ۱۲ سے کسی صاحب کے مکان یا محلے کا راستہ ٹیلی فون پر پوچھنا شروع کر دیا اور جب وہ بتا چکے تو اس کے بعد شکریہ ادا کرکے جوتوں کا نرخ پوچھا۔

نتیجہ اس کا ظاہر ہے۔ اسی مہینے میں نمبر۱۲ نے ٹیلی فون اپنے یہاں سے اٹھوا دیا۔ یہ تو خیر ہونا ہی تھا مگر بیسویں صدی کی اس بہترین ایجاد سے اصل فائدہ کسی اور نے اٹھایا۔ کسی ڈاکٹر صاحب نے ٹیلی فون لیا۔ نمبر ۱۲ خالی تھا لہٰذا قاعدہ کے مطابق ان کو نمبر ۱۲دیا گیا۔ لوگوں کو یہ کیا پتہ کہ نمبر ۱۲ پر اب کون ہے۔ لگے سب کے سب ڈاکٹر صاحب کی ’’کاری‘‘ کرنے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کیا مصیبت آئی کہ نہ لڑنے سے کام چلتا ہے نہ جھگڑنے سے نجات ملتی ہے تو بوکھلا کر انہوں نے اپنا نمبر بدلوایا۔ محکمے کو مجبوراً نمبر ۱۲ ایک عرصے تک خالی رکھنا پڑا۔ جب جاکر اس مصیبت کا خاتمہ ہوا۔

یہ ہے ان فوائد کا تھوڑا سا ذکر جن کی وجہ سے ٹیلی فون کو بیسویں صدی کا بہترین ایجاد تسلیم کرنا پڑتا۔ لیکن میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ تو میں موذی ہوں نہ کوئی بلا ہوں۔ ہاں ٹیلی فون کے ایک سیٹ کا البتہ مالک ہوں۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.