پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا

پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا
by آغا اکبرآبادی

پاؤں پھر ہوویں گے اور دشت مغیلاں ہوگا
ہاتھ پھر ہوویں گے اور اپنا گریباں ہوگا

دل وحشی تو نہ کر عشق پریشاں ہوگا
مثل آئینہ کے پھر ششدر و حیراں ہوگا

گر یہی عشق کا آغاز ہے تو سن لینا
لاش ہووے گی مری کوچۂ جاناں ہوگا

ڈوب کر مرنے کا شوق اس سے ہی پوچھ اے قاتل
جس نے دیکھا یہ ترا چاہ زنخداں ہوگا

کہتی تھی دام میں صیاد کے رو کر بلبل
اب کبھی ہم کو میسر نہ گلستاں ہوگا

جتنے دنیا میں ستم چاہے تو کر لے مجھ پر
حشر میں ہاتھ مرا تیرا گریباں ہوگا

جان دے بیٹھے گا اک روز تو اس پر آغاؔ
وہ نہیں حال کا تیرے کبھی پرساں ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse