پائے غیر اور میرا سر دیکھو
پائے غیر اور میرا سر دیکھو
ٹوٹ جائے نہ سنگ در دیکھو
ایک عالم پڑا ہے چکر میں
گردش چشم فتنہ گر دیکھو
میں نظر بند غیر مد نظر
اپنا دل اور مرا جگر دیکھو
چشم پر نم ہے تن غبار آلود
آن کر سیر بحر و بر دیکھو
فکر افشائے راز کیوں نہ کروں
کیا حیا خیز ہے نظر دیکھو
ہے دگر گوں مریض غم کا حال
ہو سکے تو دوا بھی کر دیکھو
غیر جھلتے ہیں اب انہیں پنکھا
اثر آہ پر شرر دیکھو
کم نمائی و خویشتن بینی
کتنے بے دید ہو ادھر دیکھو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |