پابندیِ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
پابندیِ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
دیوانے ہیں اس زلفِ گرہ گیر کے مشتاق
بے رحم نہیں جرمِ وفا قابلِ بخشش
محروم ہیں کس واسطے تعزیر کے مشتاق
رہتے تھے بہم جن سے مثالِ ورق و حرف
اب ان کی رہا کرتے ہیں تحریر کے مشتاق
لکھتا ہوں جو میں آرزوئے قتل میں نامے
ہیں میرے کبوتر بھی ترے تیر کے مشتاق
کیوں قتل میں عشاق کے اتنا ہے تغافل
مر جائیں گے ظالم دمِ شمشیر کے مشتاق
اے آہ ذرا شرم کہ وہ کہتے ہیں اکثر
مدت سے ہیں ہم آہ کی تاثیر کے مشتاق
سیماب تھا دل، جل کے سو اب خاک ہوا ہے
لے جائیں مری خاک کو اکسیر کے مشتاق
کیا ہجر کے دن آنے میں ہے عذر سنیں تو
ہم ہیں ملک الموت کی تقریر کے مشتاق
دل سرد کے سن کے ترے لالۂ موزوں
تھے شیفتہ ہم محسنِ تاثیر کے مشتاق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |