پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے

پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
by عشق اورنگ آبادی

پاس آداب ترے حسن کا کرتے کرتے
تجھ کو دیکھا بھی کبھی ہوں گا تو ڈرتے ڈرتے

مستعد ہو کے مرے قتل پہ آیا جلاد
میں نے یہ شعر پڑھا درد سے مرتے مرتے

بارے صد شکر خدا کا کہ بر آئی امید
آرزو آج کی یک عمر سے کرتے کرتے

سرد مہروں سیتی پالا نہ پڑا تھا سو پڑا
ہو گئے سرد دم سرد کے بھرتے بھرتے

منزل عشق نہ طے ہووی بقول سوداؔ
مل گئے خاک میں یاں پاؤں کے دھرتے دھرتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse