پانچ ہزار طنبورے اور ستار کا نذرانہ

پانچ ہزار طنبورے اور ستار کا نذرانہ
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319504پانچ ہزار طنبورے اور ستار کا نذرانہناصر نذیر فراق دہلوی

ابرو نے کیوں کھینچی کماں یہ زلف کیوں پیچیدہ ہےبھرتا ہوں تیری مانگ میں، یہ صندل سائیدہ ہےسنا جاتا ہے کہ دلی کے عیش پرست بادشاہ ہاتھی پر سوار لال قلعہ سے شہر میں گزر رہے تھے۔ حضور والا کی سواری کے چاروں طرف سوار اور پیادوں کا ہجوم تھا۔ سر راہ ایک کوٹھا تھا، جس کی چار دیواری نیچی اور بادشاہ کی سواری اونچی تھی۔ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک کمسن عورت اپنے صحن میں ایک پلنگڑی پر بیٹھی کنگھی کر رہی ہے۔ سامنے آئینہ رکھا ہے۔ بار بار آئینہ میں اپنا منہ دیکھتی ہے اور اپنی مانگ سنوارتی ہے۔ عورت قمر دیدار اور گل رخسار تھی۔ دیکھتے ہی حضور والا کا دل اس پر آگیا۔ جب حضور والا سیر سے پلٹ کر لال قلعہ میں آئے تو وزیر کے کان میں چپکے سے فرمایا، میں نے اس طرح، اس محلہ، اس کوٹھے پر ایک پری زاد سرو آزاد دیکھا ہے، اسے کسی طرح بلواؤ۔وزیر نے کہا بہت خوب۔ یہ کہہ کر وزارت پناہ اس کام کے سرانجام کے لئے حضور والا سے رخصت ہوکر چلے آئے۔ اور خفیہ قاصد اس کی ٹوہ میں لگائے۔ معلوم ہوا کہ ارباب نشاط کے گھرانہ کی اٹھتی کونپل ہے۔ وزیر نے اس کے وارثوں کو بلا کر ان سے کہا، ’’تمہارے نصیب جاگ اٹھے۔ فلاں مسماۃ حضور والا کو پسند آ گئی ہے۔ میں پینس تمہارے ساتھ کئے دیتا ہوں۔ اسے فوراً اس میں بٹھا دو۔ اور بادشاہی حرم سرا میں پہنچا دو۔ ‘‘ وارث بولے، اللہ کی امان، پیروں کی پناہ۔ دم قدم کی خیر۔ ہماری تو جان باشاہ کے اوپر سے قربان ہے۔ وہ لونڈی کیا چیز ہے۔ ایک گھنٹہ کے اندر کبو محل سرا میں پہنچ گئیں۔ حضور والا نے جو کبّو کو پاس سے دیکھا تو سچ مچ اس کے جوبن پر لٹو ہو گئے۔ دل فریب محل اسے خطاب عطا فرمایا۔اب کیا تھا۔ دل فریب محل کی چڑھ بنی۔ اس نے سال بھر میں کئی ہزار اپنے عزیزوں کو بڑے بڑے عہدوں پر پہنچا دیا۔ تال سم کی جاننے والی قوم، مسند اور قالین سنبھال کر بیٹھ گئی۔ اور شریف عہدوں سے اترکر روٹیوں سے محتاج ہوگئے۔ وزیر صاحب کی کمان بھی اتر گئی، اور وہ سہم کر چلا اٹھے۔دلفریب محل کے چچا دکن گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں خبر پہنچی کہ بھتیجی بادشاہ کے گھر میں ہے اور بادشاہ اس کے پھندے میں پھنس گئے ہیں، تو وہ اپنا سرود لے کر اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے تو دلی آکر دم لیا۔ بھتیجی سے ملے۔ بھتیجی بھی چچا کو دیکھ اس قدر شاد ہوئی کہ تالیاں پیٹنے لگی۔ جب علی بخش سرود یے کو یقین ہو گیا کہ بادشاہ بھتیجی کی مٹھی میں ہے۔ بھتیجی سے کہا میں ایسا ویسا قلیل عہدہ تو چاہتا نہیں۔ اگر تو بڑے سے بڑا عہدہ دلوا دے تو تیری ہی نام آوری ہے۔ اس نے کہا، ضرور۔جب رات کو حضور دل فریب کے پاس حرم سرا میں رونق افروز ہوئے تو دل فریب محل نے کہا کہ میرے چچا بڑے لائق فائق شخص ہیں، کوئی بڑا عہدہ انہیں دیجئے اور ان کی لیاقت کے جوہر دیکھئے۔ بادشاہ نے فرمایا کیوں نہیں۔ کل صبح میں وزیر سے پوچھوں گا اور جیسا منہ ویسی تھپیڑ۔ انہیں ان کے رتبہ کے موافق عہدہ ملے گا۔ دوسرے دن دربار میں حضور والا نے وزیر سے پوچھا، کوئی عہدہ خالی ہے۔ وزارت پناہ نے ہاتھ باندھ کر کہا، حضور! سرحدی افغانوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر جانے کے لئے تیار ہے۔ اس کی سپہ سالاری کے لئے فدوی خود عرض کرنی چاہتا تھا کہ کسے نامزد کیا جائے۔حضور والا بس ہم نے دل فریب محل کے چچا کو یہ عہدہ دیا۔ انہیں سپہ سالار بناکر آج ہی معہ فوج کے سرحد پر روانہ کردو۔ سرود یہ صاحب خضاب لگا دربار میں حاضر ہوئے۔ آداب بجا لائے اور خلعت سپہ سالاری پہن، شمشیر مرصع حضور کے دست مبارک سے لے کر دربار سے نکلے اور یلغار کرتے ہوئے سرحد پر پہنچ گئے۔ بادشاہی فوج سے افغانوں کا مقابلہ ہوا۔ افغان اپنے چھرے اور بغدے لے کر بادشاہی فوج پر پل پڑے۔ میاں علی بخش نے دیکھا کہ ان کی سپاہ گاجر مولی کی طرح کٹ رہی ہے اور خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ اس عالم کو دیکھ کر یہ تو تانت کی طرح سوکھ گئے۔ آنکھوں کے سامنے بھیروں ناچنے لگا۔ کسی کے پاؤں کا لنگڑاپن اور کسی نے کسی کی کلائی توڑی دیکھ کر ٹوڑی کی سرگم بھول گئے۔ ڈر کے مارے خاں صاحب کا پیجامہ نجس ہو گیا اور گھگھیا کر کہنے لگے،تُن تنی بجاتے، میاں کھاتے شکّر گھیایسی نوکری کی ایسی تیسی اب کے بچے جیبادشاہی اقبال یاور تھا۔ افغان کٹا چھنی کر کے چل دیے۔ پالا انہیں کے ہاتھ رہا۔ ٹھاٹھ بدل کر دلی پہنچے۔ بھتیجی سے کہا، وزیر کمبخت نے میری جان ہی لی تھی۔ مولا مشکل کشا نے بچا لیا۔ مجھے تو کسی ملک کی صوبہ داری دلوادے تاکہ مسند پر بیٹھا سرگم الاپا کروں۔ دل فریب محل نے بادشاہ سے کہا۔ بادشاہ سلامت نے وزیر سے استفسار فرمایا کہ کوئی صوبہ داری خالی ہے؟ وزیر نے کہا ایک مہینہ سے لاہور کی صوبہ داری خالی ہے۔ نائب کام کر رہا ہے۔ حضور والا نے فرمایا، دل فریب محل کے چچا کو یہ خدمت دی جائے۔ وزیر نے کہا، بہت خوب۔دوسرے دن وزیر نے علی بخش سرودیہ کو ایوان وزارت میں بلاکر کہا، صوبہ داری لاہور کی آپ کو مبارک ہو۔ مگر یہ عہدہ منصبی کہلاتا ہے۔ جب یہ دیا جاتا ہے تو اس کا نذرانہ جہاں پناہ ظل اللہ کی سرکار میں داخل کیا جاتا ہے۔سرودیہ جو آپ ارشاد کریں وہ نذر میں پیش کروں؟وزارت پناہ کچھ نہیں! آپ پانچ ہزار طنبورے اور ستار سرکار میں پہنچا دیجئے۔ اور صوبہ داری کا فرمان حاصل کر کے لاہور کا رستہ لیجئے۔علی بخش حضور بہت خوب! کچھ مہلت؟وزیر نے کہا، ایک مہینہ کی مہلت ہے۔علی بخش دوڑے دوڑے اپنی بھتیجی کے پاس آئے۔ اور سارا حال کہا۔ بھتیجی نے کہا، یہ ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ روپیہ جس قدر چاہئے مجھ سے لیجئے اور ساز مول لے کر داخل کردیجئے۔ علی بخش روپیہ لے کر بازار میں گئے اور ساز ڈھونڈنے لگے۔ بڑی تلاش اور جستجو سے کوئی دو سو ڈھائی سو ستار طنبورے ملے۔ بنانے والوں نے کہا، پانچ ہزار سازوں کا بنانا اور ان کی جواری کھولنی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اور وہ بھی بادشہ کی سرکا رکے لئے۔ کم از کم ایک سال میں ہم بنا پائیں گے۔ آپ پیشگی روپیہ دے دیجئے، تاکہ سامان بہم پہنچائیں۔ علی بخش نے جاکر دل فریب سے کہا، کاریگر یہ کہتے ہیں، در سال اگر مے کہ خورد زندہ کہ ماند۔دل فریب نے کہا، میں جانتی ہوں، یہ وزیر نے جو آڑ کواڑ کی لی ہے، یہ اس کی حرمزدگی ہے۔ تم ٹھہرو میں اسے دھنیے کی کھوپڑی میں پانی پلوا دوں گی۔ علی بخش خان اپنے گھر گئے اور دل فریب بانو انٹوا ٹی کھٹواٹی لے پڑ رہیں۔ بادشاہ آئے تو دیکھا، بیگم منہ اوندھائے چھپرکھٹ میں پڑی سبکیاں لے رہی ہیں۔ بادشاہ نے گھبراکر کہا، خیر ہے، مزاج کا کیا حال ہے؟ دل فریب نے کچھ جواب نہ دیا اور کروٹ لے لی۔ بادشاہ نے بِلک کر کہا، خدا کو مان کر کہو تو سہی کیا ماجرا ہے؟دل فریب محل وہ موامونڈی کا ٹا وزیر بے سُری الاپتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ منصبی عہدہ ہے۔ خاں صاحب جب تک آپ پانچ ہزار طنبورے اور ستار سرکار شاہی میں نہ پہنچائیں گے، صوبہ داری پر لاہور نہیں جاسکتے۔ اچھی خدا کے لئے کیا قانون ہے۔بادشاہ بیگم تم اپنا دل میلا نہ کرو۔ میں ناشدنی وزیر کو بلا کر ابھی سزا دیتا ہوں۔ اور چچا ابا کو لاہور بھیجتا ہوں۔ بادشاہ غصہ سے کانپتے ہوئے باہر تشریف لائے۔ وزیر کو بلایا اور فرمایا، یہ تم نے بیچارہ علی بخش کے ساتھ کیا کھڑاک لگایا ہے اور یہ پانچ ہزار ستار اور طنبورے اس مرد آدمی سے کیوں طلب کئے گئے ہیں۔ سرکار شاہی میں ان کمبخت چیزوں کی کیا ضرورت پیش آئی۔وزیر جہاں پناہ! دل فریب محل کے سیکڑوں اور ہزاروں عزیز ان کی سفارش سے بادشاہ کے ہاں عہدے پارہے ہیں اور شریف لوگ نکالے جارہے ہیں۔ اس لئے فدوی نے اب یہی مناسب سمجھا ہے کہ جس شریف کو عہدہ سے برطرف کروں اور دل فریب محل کے بھائی بندوؤں کو وہاں رکھوں تو اس عہدہ دار کو سمجھا دوں کہ اب تمہاری اس سرکار میں سمائی نہیں ہے۔ از راہ ترحم بادشاہ کی طرف سے یہ طنبورہ یا ستار تمہیں دیا جاتا ہے۔ یہ ہاتھ میں لو۔ گاتے بجاتے روٹی کماتے پھرو اور اپنی زندگی پوری کرو۔بادشاہ سلامت اس کی کیا وجہ ہے کہ ان چیزوں کی فرمائش خصوصاً علی بخش سے کی گئی ہے۔وزیر جناب والا! علی بخش خاں اسی پیشہ کے آدمی ہیں۔ پڑھے نہ لکھے، ساری عمر ان کی سرود بجاتے گزری۔ اس لئے انہیں کے خاندانی پیشے کے لحاظ سے نذرانہ مانگا گیا ہے۔بادشاہ سلامت ہیں! کیا علی بخش ڈھاری ہے؟وزیر جی ہاں! حضور اقدس۔بادشاہ سلامت کیا اس کی بھتیجی بھی گائن ہے؟وزیر بیشک ایک چنے کی دو دالیں۔ بس اتنا ہی فرق ہے کہ وہ مرد ہے اور یہ عورت ہے۔حضور والا لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ ارباب نشاط نے جس دربار میں رسوخ پایا اور وہ دربار تار بے تار ہوا۔ یہ مثل سچ ہو گئی۔ منہ لگائی ڈومنی اور کنبہ لائی سات۔ بزرگوں نے سچ کہا ہے،مالشے بایست مارا تاکہ بر بط را ہمیگو شمالی شرط باشد تا در آید در نواابھی اس بلائے بد کو محل سے نکالو۔ اور اس کے سارے خاندان کو ہماری سرکار سے دور کرو۔ توبہ۔ توبہ! فقط


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.