پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
لے گیا عشق ترا کھینچ بہت دور ہمیں
صبح کی رات تو رو رو کے اب آ اے بے مہر
روز روشن کو دکھا مت شب دیجور ہمیں
ربط کو چاہیے یک نوع کی جنسیت یاں
چشم بیمار اسے ہے دل رنجور ہمیں
بات گر کیجے تو ہے بندہ نوازی ورنہ
دیکھنا ہی ہے فقط آپ کا منظور ہمیں
الفت اس شوخ کی چھوٹے ہے کوئی جیتے جی
رکھو اس پند سے اے ناصحو معذور ہمیں
پی ہے مے رات کو یا جاگے ہو تم کچھ تو ہے
آنکھیں آتی ہیں نظر آج تو مخمور ہمیں
یاں سے بیدارؔ گیا وہ مہ تاباں شاید
نظر آتا ہے یہ گھر آج تو بے نور ہمیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |