پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
پایا جو تجھے تو کھو گئے ہم
بیدار ہوئے تو سو گئے ہم
دل میں لئے غیر کو گئے ہم
ایک آئے عدم سے دو گئے ہم
محشر میں لگی بجھانے آئے شیخ
سیدھے تسنیم کو گئے ہم
سمجھے نہ وہ زخم و داغ دل ہے
لے کر نئے پھول دو گئے ہم
بھر کر دم نزع اک دم سرد
جنت کی ہوا میں سو گئے ہم
اب دشت نور و عشق جو ہو
اس راہ میں کانٹے بو گئے ہم
کوثر کا تھا ذکر حوض مے پر
ہم کہہ کے گرے کہ لو گئے ہم
اللہ بچائے دخت رز سے
یہ آئی کہ مست ہو گئے ہم
اب کشمکش حساب کیسی
کچھ حشر میں آ کے کھو گئے ہم
سو کعبہ دین تھے جلوہ افروز
خم خانہ میں آج جو گئے ہم
میخانے میں جب کبھی ہم آئے
داڑھی رو کر بھگو گئے ہم
اس حج میں وہ بت بھی ساتھ ہوگا
یہ سچ ہے ریاضؔ تو گئے ہم
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |