پایا مزا یہ ہم نے اپنی نگہ لڑی کا
پایا مزا یہ ہم نے اپنی نگہ لڑی کا
جو دیکھنا پڑا ہے غصہ گھڑی گھڑی کا
عقدہ تو نازنیں کے ابرو کا ہم نے کھولا
اب کھولنا ہے اس کی خاطر کی گل جھڑی کا
اس رشک مہ کے آگے کیا قدر ہے پری کی
کب پہنچے حسن اس کو ایسی گری پڑی کا
اس گل بدن نے ہنس کر اک لے کے شاخ نسریں
ہم سے کہا کہ کیجے کچھ وصف اس چھڑی کا
جب ہم نظیرؔ بولے اے جاں یہ وہ چھڑی ہے
دل ٹوٹتا ہے جس پر جوں پھول پنکھڑی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |