پدمنی
عندلیبوں کو ملی آہ و بکا کی تعلیم
اور پروانوں کو دی سوز وفا کی تعلیم
جب ہر اک چیز کو قدرت نے عطا کی تعلیم
آئی حصے میں ترے ذوق فنا کی تعلیم
نرم و نازک تجھے اعضا دیئے جلنے کے لیے
دل دیا آگ کے شعلوں پہ پگھلنے کے لیے
رنگ تصویر کے پردے میں جو چمکا تیرا
خود بہ خود لوٹ گیا جلوۂ رعنا تیرا
ڈھال کر کالبد نور میں پتلا تیرا
ید قدرت نے بنایا جو سراپا تیرا
بھر دیا کوٹ کے سوز غم شوہر دل میں
رکھ دیا چیر کے اک شعلۂ مضطر دل میں
تو وہ تھی شمع کہ پروانہ بنایا تجھ کو
تو وہ لیلیٰ تھی کہ دیوانہ بنایا تجھ کو
رونق خلوت شاہانہ بنایا تجھ کو
نازش ہمت مردانہ بنایا تجھ کو
ناز آیا ترے حصے میں ادا بھی آئی
جاں فروشی بھی، محبت بھی، وفا بھی آئی
آئی دنیا میں جو تو حسن میں یکتا بن کر
چمن دہر میں پھولی گل رعنا بن کر
رہی ماں باپ کی آنکھوں کا جو تارا بن کر
دل شوہر میں رہی خال سویدا بن کر
حسن خدمت سے شگفتہ دل شوہر رکھا
کہ قدم جادۂ طاعت سے نہ باہر رکھا
تیری فطرت میں مروت بھی تھی غم خواری بھی
تیری صورت میں ادا بھی طرح داری بھی
جلوۂ حسن میں شامل تھی نکو کاری بھی
درد آیا ترے حصے میں، تو خودداری بھی
آگ پر بھی نہ تجھے آہ مچلتے دیکھا
تپش حسن کو پہلو نہ بدلتے دیکھا
تو وہ عصمت کی تھی او آئینہ سیما تصویر
حسن سیرت سے تھی تیری متجلا تصویر
لاکھ تصویروں سے تھی اک تری زیبا تصویر
تجھ کو قدرت نے بنایا تھا سراپا تصویر
نور ہی نور ترے جلوۂ مستور میں تھا
انجم ناز کا جھرمٹ رخ پر نور میں تھا
لب میں اعجاز حیا چشم فسوں ساز میں تھی
کہ قیامت کی ادا تیرے ہر انداز میں تھی
شکل پھرتی جو تری دیدۂ غماز میں تھی
برق بے تاب تری جلوہ گاہ ناز میں تھی
یہ وہ بجلی تھی قیامت کی تڑپ تھی جس میں
شعلۂ نار عقوبت کی تڑپ تھی جس میں
یہ وہ بجلی تھی جو تیغ شرر افشاں ہو کر
کوند اٹھی قلعہ چتورؔ میں جولاں ہو کر
یہ وہ بجلی تھی جو سوز غم حرماں ہو کر
خاک سی لوٹ گئی تیری پشیماں ہو کر
یہ وہ بجلی تھی، تجھے جس کے اثر نے پھونکا
رفتہ رفتہ تپش سوز جگر نے پھونکا
آہ و عشوہ و انداز و ادا کی دیوی
آہ او ہند کے ناموس وفا کی دیوی
آہ او پرتو انوار صفا کی دیوی
او زیارت کدۂ شرم و حیا کی دیوی
تیری تقدیس کا قائل ہے زمانہ اب تک
تیری عفت کا زباں پر ہے فسانہ اب تک
آفریں ہے تری جاں بازی و ہمت کے لیے
آفریں ہے تری عفت تری عصمت کے لیے
کیا مٹائے گا زمانہ تری شہرت کے لیے
کہ چلی آتی ہے اک خلق زیارت کے لیے
نقش اب تک تری عظمت کا ہے بیٹھا دل میں
تو وہ دیوی ہے، ترا لگتا ہے میلہ دل میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |