پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر

پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر
by مرزا فرحت اللہ بیگ
319558پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکرمرزا فرحت اللہ بیگ

انگریزی کی ایک مثل ہے کہ ’’مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے۔ یہ دونوں نہ ملے ہیں اور نہ ملیں گے۔‘‘ جس طرح یہ صحیح ہے اسی طرح یہ مثل بھی صحیح ہونی چاہئے کہ ’’ماضی ماضی ہے اور حال حال۔ یہ دونوں نہ ملے ہیں اور نہ ملیں گے۔‘‘ لیکن خدا نخواستہ اگر ان کی ٹکر ہو گئی تو سمجھ لیجئے کہ بس وہی مصیبتیں پیش آئیں گی جو مجھ غریب کو پیش آئیں۔ وہ کیا مصیبتیں تھیں ان کی بھی سن لیجئے۔ واقعات از سر تا پا غلط سہی مگر پڑھنے کی حد تک ان کو سچ جانئے اور یقین کیجئے، ورنہ پڑھنے میں خاک مزا نہ آئے گا۔ اگر آپ اس پر تیار ہیں تو بسم اللہ آگے چلئے۔

آؤحضرت تمہیں بھی دکھلا دیں
سیر ماضی کی اس زمانے میں

سنہ انیس سو کچھ میں ہم نے تعلیم سے فراغت پائی۔ اب نوکری کی تلاش ہوئی۔ ایک ریاست میں (نام کی جگہ صفر) ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ اس لئے کالج سے نکل کر سیدھا ادھر کا رخ کیا۔ یہاں پہنچے تو کسی نے کہا کہ نوکری کر لو، کسی نے کہا ابھی تعلیم جاری رکھو۔ چوں کہ کالج کا خیال دل سے ابھی تک محو نہیں ہوا تھا او ر وہاں کی صحبتیں پیش نظر تھیں، اس لئے طبیعت نے اسی تجویز کو پسند کیا اور ہم بھی اس دوسری پارٹی کے ساتھ ہو گئے۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ صورت بھی خود بخود پیدا ہو گئی۔

اس ریاست میں میرے ایک عزیز ایک بہت ہی بڑے عہدے پر تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’ارے میاں! میں ایک ترکیب بتاتا ہوں۔ یہاں کے ایک امیر اپنے چھوٹے صاحب زادے کو تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیج رہے ہیں۔ میرا ان کے ہاں بہت اثر ہے۔ اگر کہو تو تم کو اس لڑکے کا اتالیق بنا کر بھیجنے کے لئے کہہ دوں۔ تمہاری تعلیم مفت میں ہوجائے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ نواب صاحب بڑے رسوخ کے آدمی ہیں۔ واپسی کے بعد تمہیں کوئی اچھی جگہ مل جائے گی۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کو اختیار ہے۔‘‘

دوسرے تیسرے ہی روز انہوں نے مجھے بلا کر کہا، ’’ لو سب معاملہ ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ میں نے نواب صاحب سے تمہارے متعلق سب تصفیہ کر لیا ہے مگر وہ چاہتے ہیں کہ چند روز تم کو اپنے پاس رکھ کر تمہاری طبیعت کا اندازہ کر لیں۔ تم کو کبھی پرانی وضع کے نوابوں میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ تم بھی اس عرصے میں ان کی نشست و برخاست کے طریقے اور ادب آداب کے سلیقے سیکھ جاؤ گے۔ چھوٹے صاحب زادے صاحب کی طبیعت کا رنگ بھی معلوم ہو جائے گا اور انشاء اللہ اس طرح تم کچھ فائدے میں ہی رہو گے۔‘‘ میں راضی ہو گیا۔ قرار پایا کہ سہ پہر کو ان کے مدد گار صاحب لے جا کر مجھے نواب صاحب کی خدمت میں پہنچا دیں اور تعارف بھی کرا دیں۔

اب آپ نواب صاحب کے نام کی جگہ نقطے سمجھ لیجئے۔ اور مدد گار صاحب کے اسم شریف پر لکیر کھینچ دیجئے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ سچی بات بری معلوم ہوتی ہے۔ کہیں نام بتا کر میں خود مصیبت میں نہ پھنس جاؤں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ،

خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں!

بہر حال دو بجے ہی سے ہم نہا دھو کپڑے بدل، سیاہ ٹرکش کوٹ ڈانٹ، دستار پہن اور بگلوس باندھ تیار ہو گئے۔ یہاں ننگے سر رہنے کی عادت تھی۔ دستار سر پر بار ہوگئی۔ اگر چہ شملہ بمقدار علم کے لحاظ سے اس دستار کا بوجھ کچھ زیادہ نہ تھا، پھر بھی رہ رہ کر یہی جی چاہتا تھا کہ اس کو الگ ہی رہنے دو۔ اتار کر رکھ دو اور ننگے سر ہی چلے چلو۔ مگر کیا کیا جاتا۔ وہ نواب صاحب پرانی وضع کے ایسے دلدادہ تھے کہ ننگے سر جانا یقیناً خالی ہاتھ آنے کی صورت اختیار کر لیتا۔ اس لیے’’قہر درویش بر جان درویش‘‘ سمجھ کر اس بار کو اٹھاناہی پڑا۔ ابھی دستار کا تصفیہ پوری طرح نہ ہوا تھا کہ بگلوس نے ستانا شروع کیا۔ پیٹی باندھتے عمر گزری تھی، مگر کوٹ کے نیچے پیٹی باندھتے تھے نہ کہ کوٹ کے اوپر۔ کوٹ کے اوپر باندھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر ہاتھ ہلا اور ادھر کوٹ بگلوس کے اوپر گولا بن گیا۔ دامن پکڑ کر نیچے گھسیٹا، برابر کیا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہی مشکل پیش آئی اور اسی ترکیب سے پھر رفع کی۔

ہم اس کش مکش میں تھے کہ مدد گار صاحب اپنی وکٹوریہ میں آہی گئے۔ اور ہم کوٹ کا دامن نیچے کھینچتے اور دستار کو درست کرتے گاڑی میں جا بیٹھے۔ چلتے چلتے آندھی آ گئی۔ آخر خدا خدا کر کے نواب صاحب کا مکان آیا۔ گاڑی سے اتر ا۔ آگے مدد گار صاحب اور پیچھے ہم نواب صاحب کی عالی شان اور پر تکلف کوٹھی میں داخل ہو گئے۔ تین بج چکے تھے مگر معلوم ہوا ابھی نواب صاحب آرام میں ہیں۔ اس لئے دونوں کے دونوں بلیر ڈ روم میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد رپورٹر ایجنسی کی طرح اطلاعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے خبر آئی کہ نواب صاحب بیدار ہو ئے۔ پھر اطلاع آئی کہ آنکھیں ملتے مسہری سے اٹھے۔ پھر کہا گیا کہ ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ منہ دھو رہے ہیں۔ چوبدار پر چوبدار آتے اور بیان کرتے کہ اب یہ ہو رہا ہے۔ اب یہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ پرچہ لگا کہ اب شیروانی کی آستین میں ہاتھ ڈالا ہے۔

یہ خبر آنا تھی کہ کمرے کا رنگ ہی بدل گیا۔ یا تو ہم ٹٹروں ٹوں دو ہی آدمی بیٹھے تھے یاسارا کمرہ آدمیوں سے بھر گیا۔ کوئی ادھر سے آیا کوئی ادھر سے۔ کوئی اس کمرے سے نکلا کوئی اس کمرے سے۔ غرض اتنے بڑے کمرے میں تل رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ مدد گار صاحب سے سب کی صاحب سلامت تھی۔ نواب صاحب ان کو بہت چاہتے تھے۔ پھر بھلا مصاحبین کا کیا حوصلہ تھا جو ان سے جھک کر نہ ملتے۔ البتہ مجھ کو دیکھ کر ذرا کھنچتے تھے۔ اکثروں نے اپنی ناکیں ذرا ذرا اوپر چڑھا کر چھوڑ دیں۔ بعضوں کی پیشانی پر بل بھی آیا مگر جب مدد گار صاحب نے میرا تعارف کرایا اور یہ بتایا کہ میں کس خاندان سے ہوں تو ذرا ٹھنڈک پڑی۔ ایک صاحب کہنے لگے، ’’سبحا ن ا للہ! اس خاندان کا کیا کہنا ہے۔ آفتاب ہے آفتاب۔ ارے بھئی میر صاحب تم نہیں جانتے ان کے دادا صاحب قبلہ مرحوم و مغفور کی لکھنو میں کیا قدر تھی۔ واللہ عجیب آدمی تھے۔ اور بھئی ذرا دیکھنا ان کی شکل مرزا صاحب مرحوم سے کتنی ملتی ہے۔ میں نے تو ان کو بڑھاپے میں دیکھا ہے۔ واللہ جوانی میں عین ایسے ہی ہوں گے۔‘‘

مجھ کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ تقریباً سب کے سب مصاحبین لکھنؤ کے رہنے والے تھے۔ اور سب دادا مرحوم کو جانتے اور اچھی طرح جانتے تھے۔ بہر حال یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک چوبدار نے آکر اطلاع دی کہ سرکار بر آمد ہو نے والے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سب کے سب اپنی دستاریں سنبھالتے کپڑوں کو ٹھیک کرتے اور بگلوس باندھتے باہر نکل آئے۔ اب تھوڑا سا اس مکان کا نقشا بھی سن لیجئے۔

کوٹھی کیا ہے کسی بڑے بادشاہ کا محل ہے۔ قیامت کی کرسی ہے۔ سامنے بہت بڑا میدان ہے۔ اس میں سے ایک چوڑی سڑک چکر کھاتی ہوئی سیڑھیوں تک آتی ہے۔ سیڑھیوں کے بعد صحن چبوترہ اور صحن چبوترے کے بعد پھر سیڑھیاں ہیں اور یہیں کئی منزلہ مردانہ مکان شروع ہوتا ہے۔ پہلی منزل پر پرانا دقیانوسی سامان بھرا ہوا ہے۔ ان کمروں کے سامنے جو بر آمدہ ہے اس میں چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں لاوارث حاجت مندوں کے لئے پڑی رہتی ہیں۔ ان کرسیوں سے مجھ کو بھی واسطہ پڑا ہے۔ اس کا ذکر آئندہ کروں گا۔ جو بڑی سڑک چکر کھا کر محل سرا کے دروازے کو گئی ہے، وہ بلیر ڈروم کے سامنے سے گزرتی ہے، اور یہاں اتنی چوڑی ہو گئی ہے کہ اچھا خاصا صحن نکل آیا ہے۔ بلیرڈ روم کے سامنے دوسری منزل سے نیچے آنے کا زینہ، اور اس کے بائیں طرف اوپر کے بڑے کمرے کے سامنے چھوٹا سا چھجہ ہے۔ چھجے کے اوپر نہایت خوب صورت نیچی سی منڈیر ہے۔ بس میرے مضمون کے لئے مکان کا اسی قدر نقشا بالکل کافی ہے۔

خیر! تو ہم سب یہ سن کر کہ نواب صاحب بر آمد ہونے والے ہیں، کمرے سے باہر نکل آئے اور اس طرح لائن باندھ کر کھڑے ہوئے کہ یہ چھجہ ہمارے بالکل سامنے تھا۔ بلیرڈ روم ہمارے بائیں طرف اور زینہ ہمارے دائیں جانب۔ ہر شخص کی نظر اس چھجے پر لگی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ہی چوبدار نے آواز دی، ’’آداب بجا لاؤ۔‘‘ اس آواز کے سنتے ہی سب تو ایک دفعہ ہی رکوع میں گئے۔ مگر میں نے جھکنے سے پہلے ایک چلتی سی نظر نواب صاحب پر ڈال لی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نواب صاحب چھجے پر کھڑے ہیں مگر بالکل اس طرح گویا فوٹو اتروا رہے ہیں۔ میں نے ولایت کی ایک مشہور تصویر دیکھی ہے جس میں ایک بارہ سنگھے کو پہاڑ کی چوٹی پر نہایت اکڑ کر کھڑے ہوئے دکھایا ہے اس کے نیچے لکھا ہے۔

بس سمجھ لو کہ وہی رنگ تھا۔ نیچے صرف یہ لکھنا باقی تھا۔

’’جدھر دیکھتا ہوں ادھر میں ہی میں ہوں۔‘‘

یہ غلط انداز نظر ڈالنے کے بعد میں بھی تسلیم کو جھکا۔ ہماری اصطلاح میں ’’سلام کرنا‘‘ محض ماتھے کےسامنے ہاتھ لے جانے کو کہتے ہیں۔ میں سوچا کہ یہ بڑے آدمی ہیں۔ ذرا جھک کر اس فرض کو ادا کر دوں۔ جھکا، سلام کیا اور سیدھا کھڑ ا ہو گیا لیکن ادھر ادھر جو دیکھتا ہوں تو سب لوگ جھکے ہوئے زنا زن ہاتھ چلا رہے ہیں۔ ’’نقل راچہ عقل‘‘ میں نے بھی غپ رکوع میں جا، پٹا کے ہاتھ چلانا شروع کر دیے۔ مگر کن انکھیوں سے دوسروں کو دیکھتا رہا۔ جب دیکھا کہ اب سب سیدھے ہو گئے، تو میں نے سیدھے کھڑے ہو نیت کی طرح ہاتھ باندھ لئے۔

مگر حضرات! آپ ہنستے کیوں ہیں، کیا عید، بقرعید کی نماز میں اپنی حالت بھول گئے؟ آپ ہر سال نماز پڑھتے ہوں گےمگر ہر مرتبہ تکبیر کے وقت خدا کے فضل سے ادھر ادھر دیکھنا ہی پڑتا ہوگا کہ دوسروں کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یا بندھے ہوئے۔ دوسرے رکوع میں جا رہے ہیں یا ابھی اور کوئی تکبیر باقی ہے۔ میں نے تو پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر ہمیشہ ایسی ہی الجھنیں پیدا کرتی ہیں۔ پھر آپ کا میرے حال پر مسکرانا یقیناً بے جا ہے۔

جب اس تسلیمات کے جھگڑوں سے نجات پا کر میں نے اوپر نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نواب صاحب کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو یہ میری حرکت کا اثر ہے۔ جی میں تو آیا کہ لاحول ولاقوۃ تو کس مصیبت میں پڑا۔ چل گھر چل۔ پھر سوچا ذرا یہاں کا رنگ بھی دیکھ لو۔ نئی چیز ہمیشہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لطف کا بھی مزا اٹھا لو۔ میں اسی دھیڑ بن میں تھاکہ نواب صاحب نے فرمایا، ’’او ہو یہ ہمارے چھوٹے میاں کے ماسٹر صاحب ہیں؟‘‘ چلو چھٹی ہوئی۔ خدا نے خود بخود تعارف کرا دیا۔ مدد گار صاحب نے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ نواب صاحب مسکراتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ میری تعلیم کا حال پوچھا۔ میں نے بیا ن کیا۔ میرے خاندان سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ نام بنام ایک ایک کا ذکر کرتے اور تعریف کرتے۔ غرض ان ہی باتوں میں شام ہو گئی۔ جب سب رخصت ہونے لگے تو فرمایا، ’’ماسٹر صاحب آپ دونوں وقت آیا کیجئے۔ میں عموماً یہیں ہوتا ہوں۔ اگر یہاں نہ بھی ہوا تو جہاں ہوں گا چوبدار آپ کو پہنچا دیں گے۔‘‘

دربار برخاست ہوا اور سب لوگ بگلوس کھولتے ہوئے بلیرڈ روم میں داخل ہوئے۔ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے، ’’ماسٹر صاحب آپ نواب صاحب کو مخاطب کرنے میں ہمیشہ ’آپ، آپ‘ کہتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ نہ کہوں تو کیاتم کہوں؟‘‘ اردو میں تو ’’آپ‘‘ ہی تعظیم کا لفظ ہے۔‘‘ کہنے لگے، ’’نہیں سرکار کہئے، خدا وند نعمت کہیئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میر صاحب! یہ موٹی موٹے لفظ تو مجھ سے ادا ہونے مشکل ہیں۔ ہاں کل سے’سرکار‘ کہنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ مگر خدا معلوم زبان کو لفظ ’سرکار‘ سے کیا چڑھ تھی کہ کبھی یہ لفظ منھ سے نہ نکلنا تھا نہ نکلا اور ہمیشہ ’جناب عالی‘ اور ’جناب والا‘ ہی سے کام چلا کیا۔

ایک دوسرے صاحب فرمانے لگے، ’’ماسٹر صاحب! آپ کا دولت خانہ بہت دور ہے۔ صبح آ جایا کیجئے۔ دوپہر کا خاصہ یہیں تناول فرمائیے۔ شام کو تشریف لے جایا کیجئے۔ ایک کمرہ میں آپ کے اٹھنے بیٹھنے کا انتظام کئے دیتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’حضرت یہ دوسروں کے مکان میں آپ انتظام کرنے والے کون؟ اگر نواب صاحب کو میرے ٹھہرانے کا خیال ہوتا تو وہ خود ہی فرما دیتے۔ خدا میری بائیسکل کو سلامت رکھے۔ میرے لئے دور اور نزدیک سب برابر ہیں۔‘‘ وہ بے چارے شرما کر خاموش ہو گئے۔ چلتے چلتے ہم نے دربار کے اوقات بھی پوچھ لئے۔ معلوم ہوا کہ صبح کے نو بجے سے گیارہ بارہ بجے تک اور شام کے تین ساڑھے تین بجے سے سات آٹھ بجے تک نواب صاحب بر آمد رہتے ہیں۔

دوسرے روز ہم صبح ساڑھے آٹھ ہی بجے سے پہنچ گئے۔ ایک چوبدار سے پوچھا کہ ’’نواب صاحب کس طرف بر آمد ہوں گے؟‘‘ اس نے کہا، ’’میرے ساتھ آئیے۔‘‘ ہم ساتھ ہو گئے۔ اس نے لے جا، بر آمدے کی ان ہی ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر بٹھا دیا جس کا میں نے کہیں اور ذکر کیا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اکتا گیا۔ نواب صاحب نہ آج نکلتے ہیں نہ کل۔ جو چوبدار ادھر سے نکلتا اس سے پوچھتا کہ’’بھئی نواب صاحب آج بر آمد ہوں گے بھی یا نہیں؟‘‘ وہ یہی کہہ کر چلا جاتا کہ ’’آپ تشریف رکھیے، ابھی یاد ہوتی ہے۔‘‘

جب ایک کرسی پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتا تو اٹھ کر دوسری پر جا بیٹھتا۔ ایک تو ٹوٹی ہوئی کرسیاں، دوسرے ا س طرح جم کر بیٹھنے کی عادت نہیں، تیسرے تنہائی کی کوفت۔ غرض کیا کہوں کہ کیا حال ہوا۔ جیب سے گھڑی نکالتا، دیکھ لیتا۔ ادھر پاؤں بیٹھے بیٹھے سن ہو گئے۔ ادھر دستار کے بوجھ اور بگلوس کے دباؤ نے پریشان کر دیا ا ور ایک ایک منٹ کاٹنا مشکل ہو گیا۔ آخر خدا خدا کر کے دن کے بارہ بجے کی توپ چلی۔ اس وقت ایک چوبدار نے آ کر کہا، ’’اب آپ جائیے، سرکار محل میں تشریف لے گئے۔ شام کو آئیے گا تو ملاقات ہوگی۔‘‘ کیا بتاؤں کس قدر غصہ آیا لیکن جز بز ہو کر رہ گیا۔

آخر اپنی جگہ سے اٹھا اور سائیکل سنبھال گھر آیا۔ شام کو جانے کا ارادہ نہ تھا مگر لوگوں کے کہنے سننے سے پھر پہنچا۔ ایک چوبدار نے لے جا پھر انہیں کرسیوں پر بٹھا دیا۔ خیال تھا کہ شاید اس مرتبہ مشکل آسان ہوگی۔ مگر وہاں کون کس کو پوچھتا تھا۔ بیٹھے بیٹھے شام کے چھ بج گئے۔ اس وقت میں نے دل میں کہا، ’’حضرت اگر یوں ہی ہاتھ پاؤں توڑے بیٹھے رہے تو تمام عمر بھی نواب صاحب کو اطلاع نہ ہوگی۔ چلو بغیر اطلاع ہی پہنچ جاؤ۔ راستہ تو معلوم ہے۔ ہو نہ ہو نواب صاحب اسی طرف ہوں گے جدھر کل تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بلا اطلاع چلے آنے پر خفا ہو جائیں گے۔ خفا ہوتے ہیں تو ہو جائیں۔ تم روٹھے۔ ہم چھوٹے۔‘‘

یہ سوچ کرسی سے اٹھا، کمرے میں سے ہو بلیرڈ روم میں آیا۔ یہاں نواب صاحب کی آواز صاف آ رہی تھی۔ اسی آواز کی سیدھ میں چلا۔ دیکھا تو کمرے کے باہر ہی نواب صاحب اور ان کے سب مصاحب کھڑے ہیں۔ میں بھی جا تسلیمات بجا لایا۔ اس مرتبہ اس پڑھے ہوئے سبق کو ذرا اچھی طرح دہرایا۔ پرانے مشاقوں کی طرح ہاتھ میں لوچ تو نہ تھا۔ بلا سے نہ ہو مگر ہاتھ کے جھٹکے سات کے بجائے ان گنت دے ڈالے۔ جب ا س کارروائی سے فارغ ہوا تو نواب صاحب مسکرا کر کہنے لگے’’اجی ماسٹر صاحب! آپ صبح کو کہاں غائب رہے؟ مجھ کو تو آپ کا بڑا انتظار رہا۔‘‘ میں نے کہا، ’’جناب عالی! میں تو صبح کو بھی آیا تھا۔ مگر کسی نے اطلاع ہی نہیں دی۔ آخر بارہ بجے چلا گیا۔ اب بھی وہی صورت پیش آتی۔ اگر میں بغیر اطلاع نہ چلا آتا۔‘‘

یہ سن نواب صاحب کو بہت غصہ آیا۔ کہنے لگے، ’’آپ آئے تھے؟ اور مجھے اطلاع نہیں دی گئی۔ اس کے کیا معنی۔ میں نے تو کل ہی کہہ دیا تھا کہ میں جہاں بھی ہوں آپ کی اطلاع کر دی جائے‘‘ میں نے کہا، ’’دیکھئے وہ چوبدار صاحب جو پیچھے کھڑے ہیں۔ انہوں ہی نے مجھے وہاں ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر لے جا کر بٹھایا تھا اور کہا تھا کہ ’’ابھی سرکار بر آمد نہیں ہوئے۔‘‘ کئی دفعہ یہ بعد میں ادھر سے گزرے بھی مگر ہمیشہ میرے پوچھنے پر یہی جواب دیا کہ ’’ابھی عرض کر دیتا ہوں۔‘‘ اور وہ جو ان کے برابر کھڑے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو آٹھ دس مرتبہ ان سے کہا مگر انہوں نے صرف گردن کے جھٹکے ہی پر ٹالا۔‘‘ غرض میں نے ایک ایک کو لے ڈالا جتنے چوبدار تھے۔ سب نیلی پیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ مگر میں نے جب تک سب کی خبر نہ لے لی چپکا نہ ہوا۔

ایک چوبدار نواب صاحب کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے وہ کچھ ہمت کر کے آگے بڑھے اور ہاتھ باندھ کر کہا، ’’سرکار!‘‘ میں نے ان کو آگے چلنے نہ دیا اور کہا، ’’کیا سرکار، سرکار لگائی ہے، کوئی بات میں نے غلط کہی ہے جس کی اب آپ صحت فرما رہے ہیں بس خاموش رہو۔ اس طرح باتوں میں دخل دینا تمہارا کام نہیں ہے۔‘‘ وہ پھر کچھ کہنا چاہتے تھے کہ میں نے’’خاموش‘‘ اس زور سے کہا کہ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ بے چارے سمجھے ہوں گے کہ کہیں یہ حضرت زبان سے ہاتھ پر نہ اتر آئیں؟ پہلے تو نواب صاحب کی پیشانی پر کچھ بل آئے مگر پھر ہنسنے لگے۔ سمجھے ہوں گے کہ پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر ہے۔

مگر اس روز سے چوبداروں کا یہ حال ہو گیا کہ میری شکل سے گھبراتے تھے۔ میں گیا اور وہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ’’آئیے آئیے۔‘‘ نواب صاحب کہیں ہوں۔ مجھے فوراً وہاں پہنچا دیتے۔ نواب صاحب کے چہیتے چوبدار صاحب تو ایسے پریشان ہو گئے تھے کہ اگر میں جاتا اور نواب صاحب واقعی محل میں ہوتے تو مجھ سے کہتے کہ ’’ماسٹر صاحب! سرکار محل سے ابھی بر آمد نہیں ہوئے آپ جا کر خود کمرہ دیکھ لیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سمجھیں میں غلط عرض کر رہا ہوں۔‘‘

علم مجلس کا رنگ جیسا میں نے یہاں دیکھا نہ پہلے کبھی دیکھا تھا ا ور نہ دیکھنے کی آرزو ہے۔ اس نوابی دربار میں میری صاف گوئی بعض وقت عجیب رنگ لاتی تھی۔ ایک روز شام کے وقت دربار گرم تھا کہ دو سائیس صاف ستھری وردیاں پہنے، ریشمی باگ ڈوریں ہاتھوں میں لئے ایک خوبصورت گھوڑے کو ملاحظہ کے لئے لائے۔ یہ گھوڑا اسی دن آسٹریلیا سے آیا تھا اور نواب صاحب نے کوئی تین ہزار روپے کو خریدا تھا۔ گھوڑے کو نواب صاحب نے اپنے ہاتھ سے شکر کھلائی۔ کچھ پڑھ کراس کی پیشانی پر دم کیا ور کہا، ’’بھئی عجیب چیز ملی ہے۔‘‘ بس اتنا سننا تھا کہ مصاحبوں نے تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ گھوڑے کا مقابلہ براق اور رف رف تک سے کر ڈالا۔

غرض دو گھنٹے تک یہی بے سر و پا گفتگو ہوتی رہی۔ شامت اعمال دیکھو کہ نواب صاحب کا ایک اور گھوڑا تھا، ا س کو یہ بہت ہی چاہتے تھے۔ جب تعریفوں کی کوئی انتہا نہ رہی اور نواب صاحب کو ڈر ہوا کہ کہیں میرا پیارا گھوڑا اس نئے گھوڑے سے نہ دب جائے۔ تو انہوں نے کہا، ’’یہ سب کچھ سہی مگر ہمارے گھوڑے (نام بتانا گویا سارے راز افشا کرنا ہے) سے اچھا تھوڑی ہو سکتا ہے؟‘‘ یہاں تو سب سرکار کے نوکر تھے بیگن کے نوکر تو تھے ہی نہیں۔ فوراً بدل گئے۔ ایک صاحب کہنے لگے، ’’خدا وند نعمت! بھلا گھوڑوں کے تذکرے میں اس کو کیسے لایا جا سکتا ہے۔ وہ گھوڑا تھوڑی ہے۔ وہ تو انسان ہے انسان!‘‘ ان کا اتنا کہنا تھا کہ یار لوگوں کو گفتگو کا سلسلہ مل گیا۔ اب کیا تھا، اس دوسرے گھوڑے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے، جب کہیں جا کر نواب صاحب کو تسکین ہوئی۔

اس طرف سے ذرا فراغت پائی تو نواب صاحب نے میری طرف دیکھ کرارشاد فرمایا، ’’مرزا صاحب! آپ نے اس گھوڑے کے متعلق کچھ نہیں کہا‘‘۔ میں نے عرض کی، ’’جنا ب عالی! مجھے نہ اس بارے میں کوئی واقفیت ہے اور نہ تعریف کرنے کے لئے الفاظ۔ میں سرے سے گھوڑے پر چڑھنا ہی نہیں جانتا۔ سائیکل پر سوار ہوتا ہوں۔ اس کا ایک ایک پرزہ پہچانتا ہوں۔ ماشاء اللہ جب اتنے واقف کار لوگ تعریف کر رہے ہیں تو گھوڑا اچھا ہی ہوگا۔ اگر سچ پوچھئے تو میں اس تمام گفتگو میں یہ بھی نہیں سمجھا کہ گھوڑے کے کس جوڑ بند کی تعریف ہو رہی ہے۔‘‘ نواب صاحب یہ سن کر مسکرانے لگے۔ خیر ان ہی باتوں میں کوئی آٹھ بج گئے اور دربار برخاست ہوا۔

اب دوسرے دن شام کا ذکر سنئے کہ نواب صاحب نے حکم دیا، ’’ہمارا نیا گھوڑا لاؤ۔‘‘ سائیس اسی طرح بنا سنوار کر گھوڑے کو لائے مگر بجائے چلنے کے وہ پھدکتا ہوا آیا۔ چار ٹانگ کے گھوڑے کی جگہ تین ٹانگ کا گھوڑا رہ گیا۔ یہ دیکھنا تھا کہ نواب صاحب آگ بگولا ہو گئے اور اس سرے سے اس سرے تک سارے سائیسوں اور کوچوانوں کو لے ڈالا۔ مصاحبو ں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ ایک صاحب نے اس ٹانگ ٹوٹنے کو جادو کا اثر بتایا۔ دوسرے نے سائیس کی لا پر وائی کو سبب ٹھہرایا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر آخر کار بغلبہ آرا، یہ تصفیہ ہوا کہ دوسرے گھوڑوں کے سائیسوں نے جل کر اس کی ٹانگ توڑ ڈالی ہے۔ قرار پایا کہ تمام سائیس یک قلم موقوف۔ میں نے جوان غریبوں پر بلا وجہ آفت آتے دیکھی تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ آگے بڑھ کر کہا، ’’جناب والا! کل تعریفوں کے جوش میں خیال نہیں فرمایا گیا کہ یہ گھوڑ ا لنگڑا ہے۔ اگر ذرا غور سے گھوڑے کو ملاحظہ فرمایا گیا ہوتا تو کل ہی معلوم ہو جاتا کہ یہ گھوڑا تین ٹانگ کا ہے۔ کل بھی چلنے میں یہ ایک پاؤں پر زور نہیں دیتا تھا۔‘‘

میرا یہ کہنا تھا کہ جتنے لوگ وہاں کھڑے تھے، سب نے برے برے دیدوں سے میری طرف دیکھا لیکن کچھ کہنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ جانتے تھے کہ جھاڑ کا کانٹا ہو کر کہیں لپٹ نہ جائے۔ نواب صاحب کو بھی ذرا برا معلوم ہوا کہنے لگے، ’’ماسٹر صاحب! اگر آپ کومعلوم ہوا تھا کہ گھوڑا لنگ کرتا ہے تو کل ہی کیوں نہ کہا۔‘‘ میں نے کہا، ’’جناب عالی! جب اتنے حضرات تعریف کر رہے ہوں تو بھلا میری کیا مجال ہے جو ان سب کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نکال سکوں۔ اگر یہ حضرات گھوڑے کی تعریف کے بجائے میری مذمت پر اتر آتے تو میں کہاں ان سے پیچھا چھڑاتا پھرتا۔ میں سمجھا کہ گھوڑے کا لنگڑا پن بھی کوئی تعریف ہے جو اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔‘‘ نواب صاحب نے فرمایا، ’’ان سے نہیں تو چپکے سے مجھ ہی سے کہہ دیا ہوتا۔‘‘ میں نے کہا، ’’عالی جناب کو تعریفیں سننے ہی سے کب فرصت تھی جو مجھے کچھ عرض کرنے کا موقع ملتا۔‘‘ قصہ مختصر سارا الزام میرے سر منڈھ دیا گیا لیکن خدا کا شکر ہے کہ بے چارے سائیسوں پر آئی ہوئی بلا ٹل گئی۔

جب مصاحبوں کو یہ یقین ہو گیا کہ ماسٹر صاحب کے پاؤں یہاں جم گئے تو انہوں نے بھی مجھ سے راہ و رسم بڑھانی شروع کی۔ بلاتے، پاس بٹھاتے، پان کھلاتے، ادھر ادھر کی غپیں اڑتیں، شعر و سخن کے چرچے رہتے۔ غرض کچھ دنوں اچھی گزری۔ میں اس زمانے میں تحت اللفظ خوب پڑھتا تھا۔ سب نے صلاح دی کہ نواب صاحب کی مجلسوں میں تم بھی دو ایک مرتبہ پڑھو۔ نواب صاحب سن کر بہت خوش ہوں گے۔ میں راضی ہو گیا۔ چند ہی روز بعد محرم آ گیا۔ نواب صاحب کو بھی شاید کسی نے اطلاع کر دی تھی۔ انہوں نے فرمایا،

’’ماسٹر صاحب! آپ بھی مجلسوں میں شریک ہوا کیجئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’بہت خوب۔‘‘

دوسرے روز شام کے چھے بجے مجلس میں شریک ہوا۔ مجلس زنانہ مکان میں ہوئی۔ اندر پردہ ہو گیا۔ محل سرا کے وسط میں جو عمارت ہے اس کے دالانوں پر پردے ڈال کر دو حصے کر دیے۔ ایک حصہ میں مردانہ، دوسرے میں زنانہ۔ اندر کا حال تو معلوم نہیں۔ مگر مردانہ حصے کا کل فرش سیاہ تھا۔ چاندنیاں سیاہ، گاؤ تکیے سیاہ، قالین سیاہ، ممبر سیاہ، یہاں تک کہ تمام گھر والوں کا سارے کا سارا لباس دستار سے لگا کر جرابوں تک سیاہ۔ نواب صاحب ممبر کے سامنے قالین پر گاؤ تکیہ لگا کر اور تمام صاحب زادے ان کے کچھ ادھر کچھ ادھر بیٹھ گئے۔ چھوٹی صاحب زادی صاحبہ تھیں، وہ نواب صاحب کے پہلو میں آ بیٹھیں اور اشارہ کے ساتھ ہی مجلس شروع ہوئی۔

پہلے سوز خوانی ہوئی۔ یہ نہ پوچھو کہ کس طرح ہوئی۔ کئی سوز خواں تھے۔ شاید ہی کسی کو چند منٹ پڑھنے کو دیے گئے ہوں، ورنہ جس کو اور جہاں کہیں نواب صاحب نے چاہا روک دیا۔ روکنے کے لئے صرف ہاتھ کا اشارہ کیا جاتا تھا کہ ’’بس۔‘‘ ایک صاحب چار مصرعے پڑھنے کے بعد ٹیپ اٹھانا چاہتے تھے کہ’’بس‘‘ کا اشارہ ہوا اور ان کی آواز کو پنچم سے مدھم پر آنا نصیب نہ ہوا۔ جب یہ جماعت ختم ہوئی تو تحت اللفظ پڑھنے والوں کی باری آئی۔ کسی نے خوش قسمتی سے چار پانچ بندپڑھ لئے تو کمال کر دیا۔ ورنہ دو ہی بندوں پر بند کر دیے گئے۔ اس سلسلے کے ختم ہونے کے بعد حلقے کا ماتم شروع ہوا۔ ماتم کے بعد ہی مجلس ختم ہوئی۔ باہر نکل کر سب نے اصرار کیا کہ ’’کل آپ بھی پڑھئے۔‘‘

میں نے کہا، ’’حضرت مجلس کا رنگ دیکھ چکا ہوں بھلا ایسے پڑھنے میں کیا لطف، اور سننے میں کیا مزا۔ مجھے تو معاف ہی فرمائیے۔‘‘ مصاحبین میں ایک میرصاحب تھے۔ بڑے بامزہ آدمی تھے۔ کہنے لگے، ’’مرزا صاحب! آج جن لوگوں نے پڑھا وہ پڑھنا نہیں جانتے۔ کل میں دکھاؤں گا کہ کیوں کر پڑھتے ہیں۔ دیکھوں تو نواب صاحب بیچ میں کیسے روک دیتے ہیں۔‘‘ دوسرے دن جب میری صاحب کی باری آئی تو انہوں نے مرثیے کو بجائے ابتدا سے پڑھنے کے وسط سے شروع کیا اور پہلے ہی بند پر میدان میں اتر آئے۔ مرثیہ واقعی اچھا تھا۔ سب لوگ نہایت غور سے سن رہے تھے۔ میر صاحب نے تلوار تول کر اٹھائی۔ چاہتے تھے کہ ہاتھ ماریں کہ ’’بس‘‘ کا اشارہ ہوا اور میر صاحب تلوار علم کئے ہوئے ممبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ اس کے بعد سب نے مجھ پر زور دیا کہ پڑھو۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ نواب صاحب نے بھی ایک آدھ دفعہ اشارتاً فرمایا۔ مگر میں ٹال گیا اور اس طرح سنتے سنتے ہی یہ مجلسیں ختم ہو گئیں۔

محرم کی تیرہویں یا چودہویں تاریخ تھی۔ صبح آٹھ نو بجے کا وقت تھا۔ دربار جما ہوا تھا۔ معلوم نہیں کیوں ایک دفعہ ہی نواب صاحب کو کچھ خیال آ گیا۔ حکم دیا کہ ’’ہمارے جواہر خانے سے چھوٹا صندوقچہ لاؤ۔‘‘ چوبدار صندوقچہ لے آیا۔ اوپر کار چوبی کام سے لپا ہوا سبز مخمل کا غلاف، اندر ہاتھی دانت کا صندوقچہ، صندوقچہ پر گنگا جمنی جالی کا کام۔ ایسی خوب صورت چیز تھی کہ کیا کہوں؟ نواب صاحب نے صندوقچہ کھولا۔ پہلے ایک انگوٹھی نکالی۔ اس کو دیکھا بھالا اور رکھ دیا۔ اس کے بعد سونے کی ایک جڑاؤ گھڑی نکالی اور اس کو بھی الٹ پلٹ کر دیکھا اور رکھ دیا۔ پھر ایک چھوٹے چھوٹے سبز دانوں کی تسبیح نکالی۔ اچھی طرح دیکھی بھالی اور ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔

میں سمجھا کہ مجھے دکھانے کو دیتے ہیں۔ میں نے تسبیح لے کر خوب غور سے دیکھا مگر سمجھ میں نہ آیا کہ شیشہ ہے یا زمرد۔ دیکھنے کے بعد جس طرح لی تھی اسی طرح واپس کر دی اور کہا، ’’جناب والا! مجھے جواہر کی پرکھ نہیں، ممکن ہے زمرد ہو کسی جوہری کو دکھائیے۔ وہ مجھ سے بہتر بتا سکے گا۔‘‘ نواب صاحب نےمسکرا کر تسبیح صندوقچہ میں بند کی اور صندوقچہ واپس بھیج دیا۔ جب دربار برخاست ہوا تو لوگوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کیا کہ ’’واہ ماسٹر صاحب! خوب سمجھے۔ اجی حضرت تسبیح آپ کو سر فراز ہوئی تھی۔ آپ نے غضب کیا کہ واپس کر دی۔ سلام کر کے لے لیتے۔ نذر گزرانتے۔ بھلا ایسے موقع کہیں روز روز ملتے ہیں؟ ہم کو دیکھنے کے لئے بھی کوئی چیز دی جاتی ہے تو ہم سلام کر کے اپنی کر لیتے ہیں۔‘‘

میں نے کہا، ’’حضرت! یہ لوٹ مار آپ ہی کو مبارک ہو۔ اگر نواب صاحب کا ارادہ تسبیح دینے ہی کا تھا تو زبان کس نے بند کی تھی؟ بھلا میری عمر دیکھو اور تسبیح کی سرفرازی دیکھو۔ اس بے جوڑ عطا کا مطلب بغیر سمجھائے، سمجھنا میرے لئے دشوار ہی نہیں ناممکن تھا۔‘‘

اس واقعے کے چند ہی روز بعد سے ہمارے علی گڑھ جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ گھر میں کیا کیا انتظامات ہوئے اس کا علم تو اللہ کو ہے۔ ہاں باہر جو کچھ لاؤ لشکر جمع کیا گیا اس کا حال سن لیجئے۔ ایک روز شام کے چار بجے کے قریب چھوٹے صاحب زادے محل سرا سے باہر تشریف لائے۔ نواب صاحب نے فرمایا، ’’بادشاہ! لو اب تم جو چیزیں ساتھ لے جانا چاہتے ہو وہ چھانٹ لو۔ ماسٹر صاحب بھی موجود ہیں۔ یہ بھی اس انتخاب میں مدد دیں گے۔‘‘ سب سے پہلے گاڑی گھوڑوں کا انتخاب شروع ہوا۔ پڑھنے جا رہے تھے پھر بھی نواب کے بیٹے تھے۔ اللہ کے فضل سے چار گاڑیاں اور چھ گھوڑے پسند کئے۔ اس کے بعد ملازمین کے چھاٹنے کی باری آئی۔ چار خدمت گار، دو پاؤں دبانے والے، ایک کہانی کہنے والا، دو باورچی، آٹھ سائیس۔ اس طرح خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی بیس پچیس آدمی منتخب ہوئے۔

جب نوبت یہاں تک پہنچی تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا، ’’جناب والا! یہ صاحب زادے صاحب پڑھنے جا رہے ہیں یا کہانیاں سننے اور پاؤں دبوانے؟ گاڑیاں، گھوڑے استعمال کے لئے جا رہے ہیں یا پروسیشن نکالنے؟ بھلا اس لاؤ لشکر کے ساتھ تعلیم کیا خاک ہوگی۔‘‘ جن صاحب کا انتخاب اس بہیرو بنگاہ کی نگرانی کے لئے ہوا تھا، وہ بگڑ کر بولے، ’’ماسٹر صاحب! نواب صاحب کے صاحب زادے تعلیم کے لئے جا رہے ہیں۔ میرے یا آپ کے بچے نہیں جا رہے ہیں کہ ایک صندوق اٹھایا اور نکل کھڑے ہوئے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اور ہاں جناب عالی! یہ بھی بتا دیا جائے کہ خیر میں تو صاحب زادے صاحب کا اتالیق بن کر جا رہا ہوں، کیا یہ حضرت میرے اتالیق ہو کر تشریف لے جا رہے ہیں؟‘‘ ان کے لئےتو میرا ایک ہی فقرہ کافی تھا۔ بے چارے خاموش ہو گئے۔ جب میں نے دیکھا کہ طوطی کی آواز نقارخانے میں کوئی نہیں سنتا تو میں بھی لاحول پڑھ کر خاموش ہو گیا۔

اس واقعے کو دو تین روز گزر گئے۔ ایک دن رات کو جب آٹھ بجے کے قریب دربار برخاست ہونے لگا تو نواب صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا، ’’ماسٹر صاحب! آج رات کو ہم سب چھوٹے میاں کو پہنچانے کے لئے علی گڑھ جا رہے ہیں۔ آپ بھی دو بجے اسٹیشن پر آجائیے۔‘‘ میں نے عرض کی، ’’عالی جناب! میں نے ابھی تک چلنے کی کوئی تیاری کی ہے اور نہ میں ایسے فوری حکم کے لئے خود تیار تھا۔ آپ تشریف لے جائیے میں انشاء اللہ دو تین روز بعد پہنچ جاؤں گا۔‘‘ الغرض یہ تصفیہ ہوا کہ تیسرے روز میں یہاں سے روانہ ہوں۔ اور اس وقت تک نواب صاحب وہیں تشریف فرما رہیں۔

دوسرے روز صبح ہی میں نے روانگی کی تیاریاں شروع کیں۔ شام کو مدد گار صاحب سے ملنے گیا۔ ان سے معلوم ہوا کہ نواب صاحب دو تین ہی اسٹیشن گئے تھے کہ نزلہ شروع ہو گیا اور وہ مع مصاحبین واپس تشریف لے آئے، مگر صاحب زادے صاحب اور ان کا لشکر آگے چلا گیا۔ مدد گار صاحب سے مل کر میں نواب صاحب کے ہاں گیا۔ دیکھا خاصے بھلے چنگے ہیں۔ ایک آدھ چھینک آ گئی تھی۔ ڈر ہوا کہ کہیں نمونیا نہ ہو جائے۔ اس لئے واپس تشریف لے آئے۔ دوسرے دن پھر گیا تو نواب صاحب نے ایک تار میرے ہاتھ میں دیا۔ صاحب زادے صاحب کا تار تھا۔ لکھا تھا کہ ’’کالج والوں نے تمام ملازمین اور گاڑی گھوڑوں کو بورڈنگ میں رکھنے سے انکار کر دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ اگر اس کالج میں رہنا ہے تو صرف ایک اتالیق اور ایک نوکر کے ساتھ رہو ورنہ کوئی دوسرا کالج تلاش کرو۔‘‘

اس تار نے تمام مصاحبین میں ایک جوش پھیلا دیا کوئی کہتا تھا، ’’خدا وند نعمت! یہ تجارت پیشہ لوگ ہیں۔ بھلا یہ کیا جانیں کہ نوابوں کے لڑکے کس طرح رہتے ہیں؟ اور کس طرح تعلیم پاتے ہیں؟ یہ تو گدھے، گھوڑے دونوں کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ خدا کےواسطے صاحب زادے صاحب کو بلوائیے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ان کے دشمن بیمار پڑ جائیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’میر صاحب! نوابی ہی کرنی ہے تو پڑھانے سے فائدہ؟ نواب بن کر نہیں پڑھا جاتا۔ طالب علم بن کر پڑھا جاتا ہے۔ صاحب زادے صاحب کو اگر نواب صاحب بالکل میرے سپرد کر دیں تو میں دو ہی برس میں دکھا دوں گا کہ کیا سے کیا ہو گیا۔‘‘ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دوسرا تار آیا۔ لکھا تھا، ’’میں اکیلا نہیں رہ سکتا، واپسی کی اجازت دی جائے۔‘‘ میں نے بہتیرا سر مارا مگر میری ایک نہ چلی اور تار دے دیا گیا کہ ’’فوراً چلے آؤ۔‘‘ جب طالب علم ہی نہ رہا تو اتالیق کیسا؟ میں نواب صاحب کو اس روز جو آخری سلام کر کے آیا تو وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی نہیں گیا۔ مدتیں گزر گئیں۔ بھول گئے ہوں گے مگر مجھے پرانی اور نئی تہذیب کی یہ ٹکر ہمیشہ یاد رہے گی۔

تم ہمیں بھول گئے ہو صاحب
ہم تمہیں یاد کیا کرتے ہیں

نوٹ، یہ مضمون بالکل فرضی ہے۔ کوئی صاحب اس کو اپنے سے متعلق نہ فرمائیں (مصنف)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.