پردہ میں سمت غرب کے مہتاب بھی گیا

پردہ میں سمت غرب کے مہتاب بھی گیا (1933)
by نبی بخش نایاب
324012پردہ میں سمت غرب کے مہتاب بھی گیا1933نبی بخش نایاب

پردہ میں سمت غرب کے مہتاب بھی گیا
آیا نہ یار پاس مرا خواب بھی گیا

توبہ تو کی مگر نہ ہوئی دل کی کم ہوس
لو ہاتھ سے وہ جام مئے ناب بھی گیا

وہ سخت جاں ہوں میں کہ نہ آئی قضا مجھے
معدے میں بارہا مرے زہراب بھی گیا

مسجد میں سر جھکایا جو میں نے پئے نماز
سجدے کے ساتھ ہی خم محراب بھی گیا

سایہ فگن جو سر پہ مرے ابتدا سے تھا
ہے ہے وہ آج گلبن شاداب بھی گیا

یاد آئی ناخدا کو مری نا شناوری
سر پر سے جب گزر مرے سیلاب بھی گیا

آ یار ساتھ ساتھ شب پردہ پوش کے
اب تو فروغ مہر جہاں تاب بھی گیا

جادو خیال یار ہے اے ہم نشیں نہ پوچھ
پاس لحاظ داریٔ احباب بھی گیا

دنیا سے کیسے کیسے جفا کیش اٹھ گئے
ہم شادؔ ہی کو روتے تھے نایابؔ بھی گیا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).