پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے

پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے
by ریاض خیرآبادی

پردہ کس امر کا ہے اب اس بد نصیب سے
کہئے تو بات رات کی کہہ دوں رقیب سے

دیکھے جو دل کے داغ تو بولے رقیب سے
ملتے ہیں ایسے چاند کے ٹکڑے نصیب سے

چہلیں ہیں مجھ غریب سے چھیڑیں رقیب سے
پڑتا ہے کام دیکھیے کس خوش نصیب سے

اس مرتبہ جنوں میں یہی مشغلہ رہا
دے دے کے پھول داغ لیے عندلیب سے

تم ہو کلیم دیکھنے والوں میں دور کے
لوٹے ہیں ہم نے یار کے جلوے قریب سے

اچھے ہیں اک جہان سے اس کے مریض عشق
ان کو دوا سے کام نہ مطلب طبیب سے

کم بخت کی زبان سے نکلی ہے کوئی بات
کلیاں ہیں منہ پھلائے ہوئے عندلیب سے

واعظ تری بہشت کا ہم جانتے ہیں حال
دلچسپیاں بڑھا نہ بیان عجیب سے

جو بد مزاج دے نہ تسلی مریض کو
اچھا ہے اشتداد مرض اس طبیب سے

کانٹوں کے بدلے پھول چنے کس نے اے جنوں
سن آئے ہیں چمن میں وہ کچھ عندلیب سے

کافر ترے سوا جو کسی کی ہو آرزو
ہم دور ہوں خدا سے خدا کے حبیب سے

اس ضعف میں یہ حال ہے ملتی نہیں اسے
چلتی ہے چال نبض ہماری طبیب سے

اللہ رے خلوص کہ منزل ابھی ہے دور
غربت کی شام آ کے ملی مجھ غریب سے

دیتی ہے یہ ضرور جو خود بیٹھتی ہے وہ
جھکتی ہے شاخ گل بھی ذرا عندلیب سے

پوشیدہ دل میں ہے کسی پردہ نشیں کا عشق
درد نہاں کا حال کہوں کیا طبیب سے

تجھ میں پڑی ہے جان ہماری پڑی بھی رہ
اے آرزو نہ جا دل حسرت نصیب سے

لائی کچھ ان کے واسطے کچھ اپنے واسطے
گلبن سے پھول داغ لیے عندلیب سے

سر بھی سبوئے سر بھی بچا آج بال بال
زاہد نے بڑھ کے کام لیا تھا جریب سے

دن دوپہر نہ آج ہو اندھیر تو سہی
گزریں ذرا وہ حشر میں میرے قریب سے

بل گیسوؤں سے بڑھ کے جبیں پر پڑے ہوئے
کوئی یہ جانے آئے ہیں لڑ کر رقیب سے

دنیا کی کوئی بات نہیں جانتے ریاضؔ
اک شخص ہیں ریاضؔ بہت ہی غریب سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse