پردے کے پیچھے

پردے کے پیچھے
by رشید جہاں
325223پردے کے پیچھےرشید جہاں

ایک کمرہ ہے جس میں سفید فرش بچھا ہے اور کمرے کے بیچ میں ایک سوزنی بچھی ہے۔ اس پر گاؤ تکیہ سے لگی ایک بیوی بیٹھی ہیں جو رنجیدہ اور تھکی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ان کے قریب ایک چھوٹی سی صراحی،کٹورے سے ڈھکی ہوئی، تانبے کی طشتری میں رکھی ہوئی ہے۔ ان کے مقابل ایک دوسری بیوی بیٹھی ہیں جو چالیس کے قریب عمر کی ہیں اور چھالیہ کسنے میں کاٹ رہی ہیں۔ ایک طرف ان کی پٹاری رکھی ہے اور دوسری طرف اگالدان، کمرے میں دروازے سامنے ہیں اور باقی جگہوں میں طاق اور الماریاں ہیں جس میں برتن اور سرپوش چنے ہیں، وسط میں چھت پر سے پنکھا ٹنگا ہوا ہے، جس پر گلابی جھالر لگی ہے۔ کمرے کے ایک کونے میں پلنگ، اس پر پلنگ پوش پڑا ہوا ہے، دوسری طرف ایک اور سوزنی بچھی ہے گاؤ تکیہ لگا ہے اور اگالدان رکھا ہے۔

محمدی بیگم: اے ہے آپا ہمارا کیا ہے، اتنی گذر گئی، جو باقی ہے وہ بھی خدا کسی نہ کسی طرح گزار دے گا۔ میرا دل تو اب دنیا سے ایسا اکتا گیا ہے، اگر ان چھوٹے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو خدا کی قسم میں تو زہر کھا لیتی۔

آفتاب بیگم: دیوانی ہوئی ہو بوا۔ اچھی ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے جو زہر کھانے لگیں، اب تو تمہارے بہار دیکھنے کے دن آئے ہیں۔ بچے ماشاء اللہ اب بڑے ہو رہے ہیں، اب چلی ہیں زہر کھانے، مجھے دیکھو۔

محمدی: تمہیں کیا دیکھوں کوئی عمر کی بات ہے، کوئی بڈھے ہی دنیا سے تنگ آتے ہیں! ہم نے تو جتنی زندگی کی ہوس بڈھوں میں دیکھی اتنی جوانوں میں نہ دیکھی، ساری دنیا مری جا رہی ہے، نہ معلوم ہماری موت کہاں جا کر سو رہی ۔بچے وچے سب بھول جاتے ہیں اور تھوڑے دن میں سب ٹھیک۔

آفتاب: ہوش میں آ لڑکی ہوش میں! ابھی تمہاری عمر ہی کیا جو مرنے کی فکر سوار ہے، میرے سے تو تم دس بارہ سال چھوٹی ہو۔ میرے بیاہ کی باتیں ہو رہی تھیں جس برس تم پیدا ہوئی ہو۔ اس سال ملکہ مری تھی، مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے۔ اللہ بخشے چچی اماں کتنی خوش تھیں۔ میرے لئے توبٹیا ہی ہے۔ چچی اماں کے بیاہ کے تیس برس بعد کہیں تم پیدا ہوئی تھیں۔ کھانا ناچ رنگ اور کیا کیا ڈومنیاں آئی ہیں، اور تو اور تمہارا بیاہ بھی کس ارمانوں سے ہوا ہے۔ ساری دلی واہ واہ بول گئی تھی، تمہارے برابر کون خوش قسمت ہوگا۔ مجھ دکھیا کی طرف دیکھو۔ تمہارے تو اللہ رکھے میاں بچے گھر سب ہی کچھ ہے۔

محمدی: ہاں ٹھیک ہے، میاں بچے گھر سب ہی کچھ ہے، جوانی! کون مجھے جوان کہے گا؟ ستر برس کی بوڑھیاں معلوم ہوتی ہوں۔ روز روز کی بیماری، روز روز کے حکیم ڈاکٹراور ہر سال بچے جننے! ہاں مجھ سے زیادہ کون خوش قسمت ہوگا! (یہ کہہ کر آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ رومال سے آنسو پونچھ کر اور اگالدان میں تھوک کر پھر شروع کیا۔)

ابھی دو مہینے کی بات ہے پچھلا حمل گرنے سےپہلے کا ذکر ہے کہ ڈاکٹرنی کو بلانے کی صلاح ہوئی، ڈاکٹر غیاث نے بھی یہی کہا کہ اندرونی خرابی کی وجہ سے روز روز بخار نہ رہتا ہو، بہتر ہے کہ ڈاکٹرنی اندر سے دیکھ لے۔ لو عمر کی بات سنو۔ ڈاکٹرنی نے مجھ سے میری عمر پوچھی۔ میں نے کہا۔ 32 سال۔ کچھ اس طرز سے مسکرائی جیسے کہ یقین نہ آیا۔ میں نے کہا، مس صاحب، آپ مسکراتی کیا ہیں؟ آپ کو معلوم ہو کہ 17سال کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی اور جب سے ہر سال میرے ہاں بچہ ہوتا ہے۔ سوائے ایک تو جب میرے میاں سال بھر کو ولایت گئے تھے اور دوسرے جب میری ان کی لڑائی ہو گئی تھی۔اور یہ دانت جو آپ غائب دیکھ رہی ہیں یہ ڈاکٹر غیاث نے اکھاڑ ڈالے۔پاریاوار یانہ معلوم کون بیماری ہوتی ہے وہ تھی۔ ساری بات یہ تھی کہ ہمارے میاں جو ولایت سے آئے تو ان کو ہمارے منہ سے بو آتی تھی۔ وہ بچاری خوب ہنسی۔

آفتاب: تم باتیں ہی ایسی کرتی ہو کہ سننے والا ہنسے نہ تو کیا کرے۔

محمدی: خیر اس پجاری نے سینہ دیکھاپیٹ دیکھا جب اندرسے دیکھا تو گھبرا کر کہنے لگی۔ بیگم صاحب آپ کو تو پھر دو ماہ کا حمل معلوم ہوتا ہے، میراتو دل سن سے ہو گیا کہ لو اور آفت آئی۔

(اتنے میں بچوں کے رونے کی آواز دوسرے کمرے سے آئی اور لوگوں کی چیخ پکار دوسرے کمرے میں سے سنائی دی۔ بیگم صاحب گاؤ تکیہ سے اٹھ بیٹھیں اور چیخ کر)ارے کمبختوں نہ دو منٹ سونے کا آرام نہ بات کرنے کی مہلت، اتنی حرام زادیاں بھر رہی ہیں پھر بھی بچے ہیں کہ شور مچائے جاتے ہیں۔ اس سے تو خدا مجھے ہی غارت کر دے کہ دنیا کے وبا سے چھٹوں۔

(کمرے کا دروازہ کھلا دو انّائیں، صاف کپڑے سوسی کے پاجامے، مکمل کے کرتے دوپٹے، دو بچوں کو روتا ہوا لے کر داخل ہوئیں کچھ اور بچے ان سے بڑےدروازے میں کھڑے نظر آئے۔ یہ سب بچے دبلے اور زرد اور کمزور تھے۔ دروازے میں سے چبوترا اور صحن نظرآتا ہے۔)

ایک انّا: بیگم صاحب یہ بڑےننے میاں نہیں مانتے، جب کمرے میں آتے ہیں بچوں کو ستاتے ہیں، کھیلنے نہیں دیتے۔ اب ننی بی کی گڑیا اور چھوٹے میاں کی گیند لے کر بھاگ گئے اور سیدھے مردانے میں چلے گئے کئی بار۔

محمدی: (طیش کھا کر) قصائی ہے نگوڑا قصائی! گھر میں کسی کو چین نہیں لینے دیتا، آخر کس باپ کا بیٹا ہے۔

(بچے کو گود میں لے کر پیار کیا، پٹاری میں سے کچھ نکال کر دونوں بچوں کو کھانے کو دیا اور اس کے بعد انّا کو واپس کر دیتی ہیں۔)

جاؤ خدا کے لئے اب سدھارو۔ صبح سے شام تک چیخ پکار!

(پھر ٹھہرکر، جب نوکریں کو اڑ کھلا چھوڑ دیتی ہیں۔)

ارے کواڑ تو بند کر دو، صبح سے کئی دفعہ کہہ چکی ہوں جب ادھر سے نکلیں گی کواڑ کھلا چھوڑ جائیں گی!

آفتاب: بوا، تمہارے گھر میں ماشاء اللہ ہر وقت تو موا ڈاکٹر کھڑا رہتا ہے۔ پھر بھی بچے دیکھو دبلے، زرد، کم بخت، حقیر، فاقوں کے مارے معلوم ہوتے ہیں۔

محمدی: اے آپ ہی ہوں گے، جن کو ماں کا دودھ نصیب نہ ہو! انائیں جیسی کانی کھدری موٹی پتلی مل گئیں رکھ لی گئیں۔ میاں کا حکم ہے کہ جب خدا نے روپیہ دیا ہے تو تم کیوں تکلیف اٹھاؤ۔ سارا مزا اپنے نفس کا ہے کہ بچہ میرے پاس رہے گا تو خود کو تکلیف ہوگی۔ نہ رات دیکھیں نہ دن بس ہر وقت بیوی چاہئے اور بیوی پر ہی کیا ہے، ادھر ادھر جانے میں کون سے کم ہیں۔

آفتاب: محمدی بیگم تم تو ہر بات میں بچارے اپنے میاں ہی کو قصور وار ٹھہراتی ہو۔ انا رکھے تو وہ برا، نہ رکھتا تو وہ برا ہوتا۔ بو ا اللہ اللہ کرو۔

محمدی: اے ہے آپا تم یہاں نہیں تھیں جب نصیر مرا ہے۔ چار مہینے کی جان جو تکلیف اس پر گزری ہے وہ خدا دشمن پر بھی نہ ڈالے۔ غیروں سے نہ دیکھی جاتی تھی۔ اس کی انا تھی تو خاصی ہٹی کٹی۔ دیکھنے میں تندرست لیکن گرمی کی بیماری تھی۔اب اس کی خس کو خبر تھی۔ بچہ پھوٹ نکلا، یہ بڑے بڑے آبلے بدن پر پڑ گئے اور جب وہ پھوٹیں تو کچا کچا گوشت نکل پڑے، جوڑ جوڑ میں پیپ پڑ گئی۔ تسلے بھر بھر کے انہیں ڈاکٹر غیاث نے نکالی۔ میں پردے کے پیچھے سے دیکھتی، دم نہ مارو شکر گزارو، کی مثل ہے، غرضیکہ اسی طرح دو مہینے سڑ سڑ کر بچہ رخصت ہوا۔ اس کے بعد تین بچے ہوئے ہیں کتنی مصر ہوتی کہ میں خود دودھ پلاؤں گی۔ لیکن سنتا کون ہے۔ دھمکی یہ ہے کہ دودھ پلاؤگی تو میں اور بیاہ کر لوں گا۔ مجھے ہر وقت عورت چاہئے۔ میں اتنا صبر نہیں کر سکتا کہ تم بچوں کی ٹلے نویسی کرو اور پھر تم کہتی ہو۔۔۔

آفتاب: اے ہے تو یہ بات ہے! مجھے کیا معلوم۔ خدا ایسے مردوں سے بھی بچائے، جانور بھی تو کچھ خوف کرتے ہیں۔ یہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے۔ ایسے مردوں کے پالے تو کوئی نہ پڑے۔ ایسی باتیں بوا پہلے نہ تھیں۔ اب جس مردوے کو سنو کم بخت کو یہی آفت ہے۔ اب تمہارے بہنوئی ہیں، خیر اب تو بڑھاپا ہے کبھی جوانی میں بھی زیادتی نہیں کی۔ (مسکرا کر) خدا کی قسم پہروں ناک رگڑواتی تھی۔

محمدی: (ٹھنڈی سانس لے کر) اپنی اپنی قسمت ہے۔ تمہاری اس بات پر یاد آیا کہ وہ ڈاکٹرنی والی بات پوری نہیں ہوئی۔ بات کہاں کی کہاں جا پہونچتی ہے۔ جب ڈاکٹرنی نے کہا میرے دو مہینے کا پیٹ ہے۔ تو نہایت تعجب سے میری طرف دیکھ کر کہنے لگی کہ بیگم صاحب آپ تو کہہ رہی تھیں کہ چار مہینے سے آپ پلنگ پر پڑی ہیں۔ روز شام کو بخار آتا ہے اور ڈاکٹر غیاث بھی یہی کہہ رہے تھے کہ روز شام کو 100 یا 101 پر بخار ہو جاتا ہے تو آپ کا مطلب ہے کہ پھر آپ کے۔۔۔ میں نے کہا ، اے مس صاحب! تم بھی بھلی ہو، کماتی ہو، کھاتی ہو، مزے کی نیند سوتی ہو،یہاں تو مردہ جنت میں جائے یا دوزخ میں، اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔ بیوی نگوڑی چاہے اچھی ہو چاہے مر رہی ہو، مردوں کو اپنے نفس سے کام ہے۔ وہ بچاری سن کر چپ ہو گئی۔ کہنے لگی آپ اتنی بیمار ہیں۔ اور بوا وہ بچاری کیا سب ہی ڈاکٹر یہ کہتے ہیں کہ آپ کے بچے کس طرح موٹے تندرست ہوں، جب ایک تو آپ خود اتنی کمزور اور دوسرے بچے اتنی جلدی جلدی ہوتے ہیں۔ کیا کیا جائے اس سے کرسٹان ہوتے تو بھلے رہتے۔

آفتاب: توبہ کرو توبہ! کفر نہ بکو، خدا ان کافروں کو مٹائے، ایک بیٹا وہ بھی ایک کرسٹان کر بیٹھا ہے، مجھے اس کے بیاہ کے کیا کیا ارمان تھے، اب تو بھائی نے تنگ آ کر وحیدہ کی منگنی کر دی، ہائے میرے دل پر کیا کیا سانپ نہ لوٹیں گے کہ میری بچپن کی مانگ غیر کے گھر جائے اس سے تو وہ ناشدنی نہ ہوا ہوتا اور میرے لئے تو مر گیا۔

محمدی: کس دل سے کوستی ہو!بڑھاپے کا سہارا ہے کبھی تو ٹھیک ہو گا۔

آفتاب: اے وہ کیا ٹھیک ہوگا! دو برس ہو گئے صورت دیکھنے کو ترس گئی، شہر کے شہر میں رہتا ہے کبھی آکر جھانکتا بھی نہیں، اب تو سنا ہے کہ ڈیڑھ سو ملنے لگے ہیں اور خدا کا یہی شکر ہے کہ اولاد ہی ابھی تک نہ ہوئی۔ میں تو یہی دعا مانگتی ہوں کہ آفتاب بندی چاہے تیری قبر پر چراغ جلانے والا نہ ہو، لیکن اس حرامزادی، جوانامرگ، عیسائنی کے تو بچہ نہ ہو، ہائے بوا کس سے اپنا درد کہئے سب اپنی اپنی مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔ محمد بیگم!

تم نے کچھ اور بھی سنا، مرزا مقبول علی شاہ نے اور بیاہ کر لیا، دو بیویاں مرچکیں پوتیاں، نواسیاں تک بچے والیاں ہو گئیں اور یہ نئی بیوی بھی کیا بھولی بھالی شکل کی ہے جوان ہے بالکل جوان، مشکل سے کوئی بیس برس کی ہو گی، کم بخت کی قسمت پھوٹ گئی، ابھی تو بچاری کے چھ کنواری بہیں اور بیٹھی ہیں۔ جب ہی تو بچارے ماں باپوں نے ۔۔۔

(اتنے میں بڑے صاحبزادے کوئی12 سال کی عمر، مٹی میں پاجائے کی مہریاں بھری ہوئی زور سے کواڑ کھول کر بھاگتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں ریل دوسرے میں قینچی اور ان کے پیچھے پیچھے ایک تندرست لڑکی تنگ پاجامہ میں اور ملگجے کپڑے ڈوپٹہ لٹکتا ہوا داخل ہوتی ہے۔)

لڑکی: دیکھ لیےئن اماں! یہ بڑے مرزا نہیں مانتے۔یہ دیکھئے میرا نیا پاجامہ کاٹ دیا۔ یہ کہہ کر کرتا اٹھا کر دکھاتی ہے۔

میں ان سے بات بھی نہیں کر رہی تھی چپکے بیٹھی اباجان کی اچکن میں بٹن ٹانک رہی تھی اور دیکھئے یہ ڈوپٹہ کا آنچل بھی پھاڑ دیا۔

(دیوار سے لگ کھسیا کر رونے لگی۔ لڑکا بہن کی نقل اتارتے ہوئے۔)

لڑکا: اوں، اوں، اوں، اپنی نہیں کہتیں! ہاں تم سی رہی تھیں؟ کہہ دوں اماں سے واہیات کتابیں پڑھ رہی تھیں، دلدار یا ریا بانکا چھبیلا! میں نے ٹھیک سے نہیں دیکھا کہ کیا تھا۔

لڑکی: (فوراً مڑکر ) خدا کے لئے اتنا جھوٹ نہ بولا کرو، خدا کی قسم اماں! میں مولوی اشرف علی صاحب کی بہشتی زیور پڑھ رہی تھی۔ میرے پیچھے پڑ گئے کہ دکھاؤ۔ جب میں نے نہیں دکھایا تو میرا پاجامہ کاٹ دیا ۔ آپ کبھی انہیں کچھ نہیں کہتیں۔

محمدی: (ماتھا پیٹ کر) شابش ہے بیٹی شابش۔ اماں مریں یا جئیں، ہاتھ بٹانے سے تو رہیں، اور چھوٹے بہن بھائیوں سے لڑتی ہو۔ (اور بیٹے کی طرف مڑکر) یہ موذی تو سارے دن کسی نہ کسی کو دق کرتا رہتا ہے۔ دفع ہو یہاں سے۔

آفتاب: لاؤ میاں مجھے قینچی دو، دیکھ اپنی آپا کو کون دق کرتا ہے وہ بچاری کے دن کے لئے تمہارے پاس ہے۔ اب برس دو برس میں بیاہ ہو کر سسرال چلی جائے گی تو پھر صورت دیکھنے کو ترس جاؤ گے۔

(صابرہ نے اس جملہ پر فوراً شرما کر سر جھکا لیا اور چپکے سے پیچھے کھسک جاتی ہے۔ بڑے مرزا گاؤ تکیہ کو گھوڑا بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور چند لمحہ ٹھہر کر کودنے لگتے ہیں۔)

لڑکا: تو پھر یہ ہمیں کتاب کیوں نہیں دکھاتی تھیں۔

محمدی: اے ہے بڑے مرزا خدا کے لئےرحم کرو، اور اس طرح مجھ کو نہ ہلا ڈالو، سارا جسم ہلا دیا۔ کم بخت دھڑکن ہونے لگی، خدا کے لئے جاؤ باہر۔ جاؤ اپنے ابا کے پاس اور مولوی صاحب آتے ہوں گے، سبق یاد کر لیا؟

آفتاب: زیادہ بچے ہوتے ہیں، ماشا ءاللہ گھر تو بھرا بھرا معلوم ہوتا ہے لیکن ہر وقت کا شور وغل بھی ناک میں دم کر دیتا ہے۔ بوا اب میں گھر میں ہوں سارے دن کوّے ہکنی کی طرح بیٹھی رہتی ہوں۔ یہ آتے ہیں نماز وماز پڑھنے۔ گھڑی دو گھڑی بیٹھے بیٹھک میں چلے گئے۔ خدا کسی کو ایسا اکیلا بھی نہ کرے۔ ہائے کیا کیا ارمان تھے! (ددروازہ کھلتا ہے اور ایک کولن حصہ لئے ہوئے داخل ہوتی ہے۔)

کولن: سلام بیگم صاحب سلام! بڑی بیگم لیجئے میں تو آپ کے ہاں حصہ لے کر جانے والی تھی، کہو بیگم مزاج کیسا ہے، اللہ رکھے بچے کیسے ہیں؟

محمدی: ہاں بوا میں تو جیسی ہوں ویسی ہوں کہو بھابی اچھی ہیں۔ سب بچے اچھے ہیں۔ خدا پوتا مبارک کرے۔ پنجیری ہوگی۔ رحیمن لے طشتری خالی کر دے۔(صندوقچی کھولتے ہوئے) آپا ایک ٹکڑا پان کا دے دینا۔

آفتاب: رحیمن میرا حصہ بھی یہیں لے لے۔

یہ کہہ کر پان لگانے لگیں، محمدی نے دو آنہ کولن کو دیئے۔

محمدی: سب کو بہت بہت سلام دعا کہہ دینا۔ کسی روز طبیعت اچھی رہی تو آؤں گی سب کے ملنے کو دل پھڑک گیا۔ بچے کو دیکھنے کو بہت دل چاہتا ہے اور بھابی سے کہنا کہ بوا تم نے تو آنے کی قسم کھا لی ہے۔

(آفتاب نے پان دیا اور کمر بند سے پیسے نکال کر دو آنے دیئے)

کولن: بیگم صاحب ہماری بیوی بھی بہت یاد کرتی ہیں۔ فرصت ذرا نہیں ملتی، آج کل تو خیر گھر بھرا ہے۔ سب ہی آئے ہوئے ہیں۔

آفتاب: سلطان دلہن کو میری طرف سے دعا کہہ دینا اور کہنا بوا پوتا مبارک ہو میں جمعہ کو انشا ءاللہ آؤں گی۔

(کولن رکابیاں لے کر دونوں کو سلام کرکے رخصت ہوتی ہے۔)

محمدی: آپا ہماری بھابھی سلطان کا بھی خوب طرز ہے۔ ان کے میاں نے کبھی چالیس روپے سے زیادہ نہیں کمایا لیکن وہ سلیقہ ہے ماشاء اللہ سب کچھ کیا۔ بیٹوں کا بیاہ کیا، بیٹیوں کا بیاہ کیا۔ اب بیٹا خدا کے فضل سے اچھا نوکر ہو گیا ہے۔ کوئی سوا سو کا۔ آگے بڑھنے کی بھی امید ہے۔

آفتاب: بہو بھی اچھی ہے۔ (ٹھنڈی سانس بھر کر) اپنی اپنی قسمت ہے۔ ایک ہم ہیں خیر یہ تو ہوگا کہو رضیہ کی بھی کچھ خبر ہے؟ تمہارے ماموں نے تو اس کا ایسے چٹ منگنی پٹ بیاہ کیا کہ کسی کو بلایا تک نہیں۔

محمدی: بلایا تک نہیں تو کیا ہوا۔ گھر گھر دوہرا تہرا کھانا بھجوایا تھا۔ شادی اس غریب کی جس طرح ہوئی وہ بھی اپنی بدنامی کے ڈر سے جلدی کر دی اور اس میں بھی خدا ان کا بھلا کرے۔

آفتاب: اے ہے یہ بات تھی تو مجھےمعلوم ہی نہیں، ہاں تو پھر کیا ہوا؟

محمدی: تمہیں نہیں معلوم! اب تو سب ہی کو معلوم ہے۔ اس بچاری کی عمر ہی کیا ہے۔ میری صابرہ سے دو ڈھائی سال بڑی ہے۔ میری شادی کے تو بعد پیدا ہوئی ہے۔ جب چھوٹے ماموں کلکتہ سے آئے۔ برسوں بعد آئے تھے۔ ہم سبھی جمع تھے۔ نانی اماں بچاری، ہاتھ پاؤں میں رعشہ، سب سے زیادہ خوش تھیں۔ رضیہ کو میں کچھ روزکے لئے ساتھ لے آئی۔پھر چھوٹی ممانی میکے چلی گئیں۔ لڑکی تین چار مہینے رہ گئی۔ رضیہ ددھیال پر جان دیتی ہے۔ ننھیال سے اس کو کچھ رغبت نہیں ہے۔ بری بہن کا گھر تھا رہ گئی تھی تو کیا ہوا میرے فرشتوں تک کو خبر نہیں۔ جب ماں میکے سے آئیں تو رضیہ اپنے گھر چلی گئی۔ ایک روز رضیہ کا پرزہ آیا۔ کہ آپا جانی خدا کے لئےجلدی آیئے۔ بس آپا کیا بتاؤں، جب وہاں پہونچی تو چھوٹی نانی تو آپ نے دیکھی ہیں کیسی ہیں۔ وہ ظاہر داری کی باتیں کرتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ بہت آؤ بھگت کی۔ رضیہ نے چپکے سے ایک پرزہ دیا اور کہاکہ دولہا بھائی روز ہمارے یہاں آتے ہیں اور اماں بڑی خاطر مدارات کرتی ہیں اور چپکے چپکے باتیں ہوتی ہیں۔ کنواری لڑکی اور کیا کہتی۔ یہ بھی بچاری نے بڑی ہمت کی۔ خط دیکھوں تو ہمارے میاں کا رضیہ کے نام۔ وہ عشقیہ خط کہ ناولوں بھی میں بھی نہ ہوگا۔ بس میں جل ہی تو گئی رضیہ کو سمجھا کر کہ تم کچھ نہ کہو میں کسی سے تمہارا نام نہیں لوں گی۔ میں جلتی سلگتی گھر پہونچی ۔ ان سے ذکر کیا۔ اے آپا خدا کی قسم! دیدوں میں گھس گئے کہ کیا برائی ہے اور میں تو رضیہ سے شادی کروں گا چاہے تمہیں طلاق ہی دینی پڑے۔ میں نے کہا۔ میاں ہوش میں ہو یا بالکل ہی بے ہوش ہو! شریفوں کی لڑکی ہے، اگر اس کا نام بھی لیا تو اس کے باپ چچا بھائی تمہاری ہڈی بوٹی کر دیں گے۔ ان خیالوں میں بھی نہ رہنا!

آفتاب: تو تمہاری ممانی نے چپکے چپکے بات پکی کر لی ہوگی۔ اسی لئے تو غرے سے کہہ رہے ہوں گے۔

محمدی: اے اور کیا۔ انہیں اللہ بخشے اماں سے اور مجھ سے ہمیشہ کی دشمنی ہے، جب اماں بیمار تھیں تب بھی ان کے سامنے قسمیں کھا کھا کر کہتی تھیں کہ اس وقت تک چین نہ لوں گی جب تک محمدی کا گھر اجڑوانہ دیا ہو۔ اور ہم ہی پر کیا بڑی ممانی جان سے بھی یہی بعض ہے۔ اور چونکہ رضیہ کی منگنی چچا کے ہاں ہوئی تھی تو روز روز کی لڑائی تھی کہ دشمنوں میں بیٹی نہ دوں گی۔

آفتاب: (ہنس کر) اور بوا تمہارے میاں ہی میں کیا رکھا تھا، بیوی والا، بچوں والا ہاں روپیہ ہے۔ تو تمہارے بڑے ماموں بھی غریب نہ تھے۔ کہیں شریفوں میں بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں۔موے پنجابیوں میں دو بہنیں اپنی بیٹیاں ایک مرد کو بیاہ دیں تو بیاہ دیں، ہمارے ہاں تو ایسا ہوتا نہیں۔ اب نیا زمانہ ہے جو کچھ نہ ہو تھوڑا ہے۔ ہاں تو پھر کیا ہوا؟

محمدی: جب میں بگڑی اور صلواتیں سنائیں تو خوشامد کرنے لگے کہ میں اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔ ہائے خدا کے لئے میری مدد کرو۔ میری مدد کرنا تمہارا فرض ہے۔ قرآن شریف کھول کر بیٹھ جائیں اور آیتیں پڑھیں کہ میں ان کی مدد نہ کروں گی تو بعد مرنے کے یہ ہوگا وہ ہوگا۔ اب اس سے زیادہ کون سی آگ ہوگی؟ یہ ہر وقت کا جلنا، غرضکہ ہر وقت کی یہی باتیں کہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔ کمرا بند کئے منہ اوندھائے پڑے ہیں۔ رضیہ ہائے رضیہ ہور ہی ہے، میں پڑی سب سن رہی ہوں۔ خدا کی قسم آپا اس قدر کلیجہ پک گیا ہے کہ یہ روپیہ پیسہ اب تو مصیبت معلوم ہوتا ہے۔ روکھی روٹی ہو اور سکھ ہو۔ آپا ذرا ایک پان دینا باتیں کرتے کرتے ہونٹ سوکھ گئے۔

(پاس صراحی رکھی تھی اس میں سے پانی نکال کر پیا۔آفتاب نے پان کھایا اور محمدی کو بھی دیا۔)

غرض کہ یہی حالت جاری رہی اور وہ عشقیہ لفظ اس معصوم کنواری بچی کے لئے استعمال کریں اورمیں سب سنوں اور دل میں گھٹوں اور چھوٹی ممانی ہیں کہ وہی سلوک وہی خاطر، رضیہ تمہارے دولہا بھائی آئے ہیں۔ پان دو۔ الائچی دو۔

آفتاب: اچھا تو یہ کہو کہ سب کچھ کیا دھرا تمہاری ممانی ہی کا تھا۔

محمدی اور کیا! وہ لڑکی گھنٹوں روئے، کہیں میں مل جاؤں تو دل کا بخار نکال لے۔ ایک مہینہ تو میں چپ رہی۔ پھر ایک دن دونوں ماموں مجھ سے ملنے آئے۔ میں نے کہا۔ کیوں ماموں جان کیا رضیہ کی منگنی چھٹ گئی؟ دونوں بھائی چکرا گئے۔ پھر میں بھری بیٹھی تھی میں نے سب کچا چٹھا کہہ ڈالا۔ دونوں میں کچھ صلاح ہوئی ہو گی۔ تیسرے دن رضیہ کا بیاہ ہو گیا۔

آفتاب: اللہ اللہ خیر صلا!

محمدی : لیکن بوا چھ مہینے یہ گھر میں نہیں گھسے، ہر وقت چاوڑی میں پڑے رہتے تھے اور میں تو خوش تھی۔ اللہ گواہ ہے جس روز یہ ادھر ادھر چلے جاتے ہیں تو میں چین کی نیند ہوتی ہوں۔ روز یہی ہے کہ تم تو روز روز کی بیمار ہو، میں کب تک صبر کروں؟ میں دوسرا بیاہ کرتا ہوں۔ اور پھر یہ ضد ہے کہ تم میرا بیاہ کرواؤ۔ شرع میں چار بیویاں جائز ہیں تو میں کیوں نہ کروں۔ میں نے تو کہا بسم اللہ کرو۔اب سال بھر بعد صابرہ کی رخصت ہے۔ باوا بیٹیوں کا ساتھ ساتھ ہو جائے۔ ایک گود میں نواسہ کھلانا دوسری میں نئی بیوی کا بچہ، بس لڑنے لگتے ہیں کہ عورتیں کیا جانیں، خدا نے ان کو حس ہی نہیں دی۔ میں تو کہتی ہوں کہ تم میں سارے مردوں کی حس بھری ہوئی ہے۔ اب کیا۔۔۔

آفتاب: (بھڑک کر) محمدی بیگم جہاں دیکھو یہی آفت آئی ہوئی ہے، مردوں نے تو وہ گڑو جیتا ہے کہ اَٹ بھی ماریں پٹ بھی ماریں ۔ اب یہ ظلم ہے یا نہیں کہ بیاہ بھی کروں گا اور یہ بھی بیوی ہی کم بخت۔۔۔

محمدی: اسی سے تو میں جل جل کر اپنے مرنے کی دعا مانگتی ہوں۔ ایک تو ہر وقت کی اپنی بیماری، روز روز کا بچوں کا رنجھنا الگ، خیر بڑے بچے تو ماشا ءاللہ خاصے تندرست ہیں ہاں یہ چھوٹے بچے آئے دن بیمار رہتے ہیں۔ ان سب باتوں نے اب جینے کا لطف تو بالکل گھودیا۔ اور یہ تو میں جانتی ہوں کہ یہ دوسرا بیاہ کریں اور پر کریں۔یہ ہر وقت کا دھڑکا الگ، خدا اس سے پہلے تو مجھے اٹھا لے کہ میں سوکن کا منہ دیکھوں، اور سوکن کےڈر سے بوا میں نے کیا کیا نہ کیا۔ دو دفعہ آپریشن بھی کروایا۔

آفتاب: اے ہاں ہم نے تو سنا تھا کہ تم نے تو کچھ ایسا کروا لیا ہے کہ اب تمہارے با ل بچے نہ ہوں گے۔

محمدی : یہ تم سے کس نے کہا؟ اصل بات یہ تھی کہ رحم اور نیچے کا سارا جسم جھک آیا تھا، تو اس کو ٹھیک کروا لیا گیا تھا کہ پھر سے میاں کو نئی بیوی کا لطف آئے۔ اے بوا جس عورت کے ہر سال بچے ہوں اس کا بدن کب تک ٹھیک رہے گا؟ پھر کھسک گیا۔ پھر میرے پیچھے پڑ کر ڈرا دھمکا کر مجھے ذبح کر وایا اور پھر بھی خوش نہیں ہیں۔

(اذان کی آواز پاس کی مسجد سے آتی ہے)

آفتاب: اے ہے بوا ظہر کا وقت ہو گیا، باتوں میں ایسی مشغول ہوئی کہ سب کچھ بھول گئی (کسنا باندھتے ہوئے) اب نماز پڑھ کے ہی جاؤں گی۔ تمہارے بھائی بچارے انتظار کررہے ہوں گے۔

محمدی: اے آپا آج تم آگئیں تو اتنا دل کا بخار بھی نکل گیا۔ ذرا جلدی جلدی ہو جایا کرو۔ میں تو بیمار ہوں نہ کہیں آنے کی رہی نہ جانے کی۔

اے رحیمن ۔ رحیمن۔ گل شبو!

(رحیمن آتی ہے۔)

محمدی: جا بڑی بیگم صاحب کو وضو کروا اور صحنچی میں چوکی پر جا نماز بچھا دے۔

(پردہ)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.