پریشانی ہے جی گھبرا رہا ہے
پریشانی ہے جی گھبرا رہا ہے
کوئی دھیمے سروں میں گا رہا ہے
کہوں کیا حال ناکام محبت
تمناؤں سے جی بہلا رہا ہے
کوئی شب کی خموشی میں ہے گریاں
تصور میں کوئی سمجھا رہا ہے
تصور کی یہ مقصد آفرینی
میں سمجھا کوئی سچ مچ آ رہا ہے
جو رستہ خلد میں نکلا ہے جا کر
وہ دوزخ سے نکل کر جا رہا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |