پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
گریباں چاک کر دیتے ہیں بے دامن بناتے ہیں
جنوں میں جا بجا ہم جو لہو روتے ہیں صحرا میں
گلوں کے شوق میں ویرانے کو گلشن بناتے ہیں
جنہیں عشق دلی ہے وہ تمہارا نام جپنے کو
طہارت سے ہماری خاک کی مسرن بناتے ہیں
مرقع کھینچتے ہیں جو ترے گنج شہیداں کا
تہہ شمشیر ہر تصویر کی گردن بناتے ہیں
دیا کرتے ہو تم جس طرح سے بل زلف پیچاں کو
مسافر کے لیے یوں پھانسیاں رہزن بناتے ہیں
حسینان چمن پر خاتمہ ہے جامہ زیبی کا
پھٹا پڑتا ہے جوبن جو یہ پیراہن بناتے ہیں
ہمیشہ شیفتہ رکھتی ہے اپنی حسن قدرت کا
خود اس کی روح ہو جاتے ہیں جس کا تن بناتے ہیں
ارادہ ہے جو شمشیر دو دم کے منہ پہ چڑھنے کا
ترے جاں باز چار آئینہ و جوشن بناتے ہیں
رہا کرتے ہیں وہ دل میں پھرا کرتے ہیں نظروں میں
عطا کرتے ہیں نور آنکھوں کو دل روشن بناتے ہیں
صلاح عشق دے دے کر کیے دیتے ہیں خود رفتہ
ترے شیدائی دل سے دوست کو دشمن بناتے ہیں
کوئی چاک جگر بلبل کا گل چینوں سے پاتا ہے
نکھرنے کو گل اپنے اپنے پیراہن بنانے ہیں
گلوں کے ڈھیر لا لا کے چمن سے اس میں پھونکیں گے
قریب بوستاں بیداد گر گلخن بناتے ہیں
مدد تیار ہے نقشہ ارم کا کھنچ کے آیا ہے
شہید ناز پر رحم آ گیا مدفن بناتے ہیں
مرقع کھینچتے ہیں باغ کا جو حسن قدرت سے
گل شاداب کا کیا رنگ کیا روغن بناتے ہیں
تعلق زیب و زینت سے نہیں کچھ خاکساروں کو
شرفؔ مٹی میں رنگتے ہیں جو پیراہن بناتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |