پسے دل اس کی چتون پر ہزاروں
پسے دل اس کی چتون پر ہزاروں
موے بے ساختہ پن پر ہزاروں
مری ضد سے ہوا ہے مہرباں دوست
مرے احساں ہیں دشمن پر ہزاروں
براے شکر قاتل رونگٹوں سے
زبانیں ہیں مرے تن پر ہزاروں
نہ اٹکھیلی سے چل ہوتے ہیں صدمے
دل شیخ و برہمن پر ہزاروں
ہوا سر خم نہ زیر تیغ جلاد
رہے بوجھ اپنی گردن پر ہزاروں
ترے کشتہ ہیں ہم آنکھیں ملیں گے
ہمارے سنگ مدفن پر ہزاروں
نہ مل اے لعبت چین عطر گل زار
گلا کاٹیں گے گلشن پر ہزاروں
نہیں اک مرد کو دنیا سے مطلب
مریں نامرد اس زن پر ہزاروں
عجب کیا ہے اگر پروانے بے شمع
جلیں آتشؔ کے مدفن پر ہزاروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |