پشیمانی
by تصدق حسین خالد

موت کا راگ نفیری پہ بجاتی آٹھی
لو جھلستی ہوئی لو
آٹھی
بڑھی
ریت پہ جیسے دھواں اٹھتا ہو
سرسراہٹ سی درختوں میں ہوئی
پتے مرجھا گئے
گرنے لگے
وہ ان کے کھڑکنے کی صدا میرے خدا

لو کے ہم راہ بڑھے
موت کے ناچ کا نکلا تھا جلوس
چونک کر جاگ اٹھے صحن چمن میں طائر
آشیانوں سے جدائی انہیں منظور نہ تھی
سہم کر اٹھے اڑے اڑ کے وہیں آں گرے
ان کی اس آخری فریاد کی غم ناک صدا میرے خدا

اک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جھکائے ہوئے سر
ہاتھ آنکھوں پہ رکھے
بیٹھی ہے غمگیں اداس مجبور
پہلو میں افسردہ خوشی کو لے
سانس رکنے لگا
خوں جمنے لگا
بے کلی ڈھونڈھتی پھرتی ہے پناہ
رینگتا رینگتا خوف آیا سسکتا ہوا سانپ
بے کلی کانپ اٹھی
خوف جھپٹ کر اٹھا بے کلی نزع میں تھی
مجھ کو بچا میرے خدا

تیرگی کانپی
فضا لرزی
کھلی کرنوں کی راہ
روحیں جو وسعت آفاق میں آوارہ سی تھیں
ڈھونڈھتی پھرتی تھیں منزل اپنی
پھڑپھڑائے ہوئے پر اپنے اٹھیں
اور ہواؤں میں بڑھیں
سامنے جنت گم گشتہ نظر آتی تھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse