پلا جام ساقی مے ناب کا
پلا جام ساقی مے ناب کا
کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا
دلِ زار کا ماجرا کیا کہوں
فسانہ ہے مشہور سیماب کا
کہاں پھر وہ نایاب، پایا جسے
غلط شوق ہے جنسِ نایاب کا
نہ کیجو غل اے خوش نوایانِ صبح
یہ ہے وقت ان کی شکر خواب کا
محبت نہ ہرگز جتائی گئی
رہا ذکر کل اور ہر باب کا
دمِ سرد سے لا نہ طوفانِ باد
نہ سن ماجرا چشمِ پر آب کا
وہاں بے خودوں کی خبر کون لے
جہاں شغل ہو بادۂ ناب کا
وہاں تیرہ روزوں کی پروا کسے
جہاں شوق ہو سیرِ مہتاب کا
وہ تشخیصِ شخصی بھی جاتی رہی
کنارا الٹتے ہی جلباب کا
میں بے جرم رہتا ہوں خائف کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا
پڑے صبر آرام کی جان پر
مری جانِ بے صبر و بے تاب کا
لبِ لعل کو کس کے جنبش ہوئی
ہوا میں ہے کچھ رنگ عناب کا
نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |